بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

آدم علیہ السلام کو جس درخت سے منع کیا گیا تھا وہ کون سا تھا؟


سوال

 جس درخت سے آدم علیہ السلامکو اللہ نے منع کیا وہ کس چیز کا درخت تھا؟ اور یہ بھی وضاحت فرمائیں کہ وجہ منع کیا تھا؟

جواب

حضرت آدم اور حضرت حوا علیہما السلام کو جس درخت کے کھانے سے منع کیا گیا تھا اس میں متعدد اقوال ہیں، مشہور یہ ہے کہ وہ گندم کا تھا، ایک قول انگور کا ہے، نیز  اس کے علاوہ انجیر، کافور اور بھی اقوال ہیں، لیکن اس درخت کو  قرآن کریم نے متعین نہیں کیا اور کسی مستند حدیث میں بھی اس کی تعین مذکور نہیں، اس لیےمفسرین کے نزدیک  اس میں سب بہتر توجیہ یہی ہے کہ جس کو قرآن و حدیث نے مبہم چھوڑا ہے اس کو متعین کرنے کی ضرورت  نہیں ہے، بلکہ اللہ ہی بہتر جانتے ہیں کہ وہ کون سا درخت تھا۔ نیز اس درخت کی تعیین پر ہمارا کوئی عمل یا کامیابی موقوف نہیں ہے، اس لیے اس سعی کے ہم مکلف بھی نہیں ہیں۔انبیاء علیہم السلام کے قصص میں ہماری نصیحت وعبرت کے لیے جو پہلو مفید ہیں قرآنِ مجید میں وہ بیان کردیے گئے ہیں۔

باقی درخت کے پھل سے روکنا ابتلا وآزمائش کے لیے تھا۔ بعض اہلِ علم فرماتے ہیں کہ اس آیت میں ہی اشارہ ہے جنت میں ان کی رہائش عارضی ہوگی، اس لیے کہ جو چیز ہمیشہ رہنے کی جگہ ہو اس میں کسی قسم کی روک ٹوک اور خطرہ نہیں ہوتا، اور اللہ تعالی چوں کہ حضرت آدم علیہ السلام کو زمین کی خلافت دے چکے تھے اس لیے تکوینی طور پر یہ سب ہوا۔

تفسير الألوسي = روح المعاني (1/ 236):
"ووقع خلاف في هذه الشجرة، فقيل: الحنطة، وقيل: النخلة، وقيل: شجرة الكافور- ونسب إلى علي كرم الله تعالى وجهه. وقيل: التين، وقيل: الحنظل، وقيل: شجرة المحبة، وقيل: شجرة الطبيعة والهوى «وقيل، وقيل ... » والأولى عدم القطع والتعيين، كما أن الله تعالى لم يعينها باسمها في الآية، ولا أرى ثمرة في تعيين هذه الشجرة".

التفسير المظهري (1/ 57):
"والشجرة هى السنبلة على قول ابن عباس ومحمد بن كعب، والعنب على قول ابن مسعود، والتين على قول ابن جريح، والكافور على قول على، وقال قتادة: شجرة العلم، وفيها من كل شىء، فقيل: وقع النهى على جنس من الشجرة، وقيل: على شجرة مخصوصة، والظالمين أي الضارين أنفسكما بالمعصية، وأصل الظلم وضع الشيء في غير موضعه".
تفسير القرطبي (1/ 304):
"وقال بعض أرباب المعاني قوله:"ولا تقربا" إشعار بالوقوع في الخطيئة والخروج من الجنة، وأن سكناه فيها لا يدوم؛ لأن المخلد لا يحظر عليه شي ولا يؤمر ولا ينهى. والدليل على هذا قوله تعالى:" إني جاعل في الأرض خليفة" [البقرة: 30] فدل على خروجه منها".

تفسير القرطبي (1/ 305):
"التاسعة: واختلف أهل التأويل في تعيين هذه الشجرة التي نهي عنها فأكل منها، فقال ابن مسعود وابن عباس وسعيد بن جبير وجعدة بن هبيرة: هي الكرم، ولذلك حرمت علينا الخمر. وقال ابن عباس أيضاً وأبو مالك وقتادة: هي السنبلة، والحبة منها ككلى البقر، أحلى من العسل وألين من الزبد، قاله وهب بن منبه. ولما تاب الله على آدم جعلها غذاء لبنيه. وقال ابن جريج عن بعض الصحابة: هي شجرة التين، وكذا روى سعيد عن قتادة، ولذلك تعبر في الرؤيا بالندامة لآكلها من أجل ندم آدم عليه السلام على أكلها، ذكره السهيلي. قال ابن عطية: وليس في شي من هذا التعيين ما يعضده خبر، وإنما الصواب أن يعتقد أن الله تعالى نهى آدم عن شجرة فخالف هو إليها وعصى في الأكل منها. وقال القشيري أبو نصر: وكان الإمام والدي رحمه الله يقول: يعلم على الجملة أنها كانت شجرة المحنة". 
 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144004200069

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں