بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

آبِ زمزم  کھڑے ہو کر پینے میں حکمت


سوال

آبِ  زم زم کھڑے ہو کر پینے میں کیا حکمت ہے?

جواب

ملا علی قاری رحمہ اللہ  مشکاۃ المصابیح کی شرح مرقاۃ المفاتیح میں لکھتے ہیں کہ: آب زمزم  کھڑے ہوکر پینےکی وجہ یہ ہے کہ زمزم کے پانی میں مطلوب یہ ہے کہ خوب سیر ہو کر پانی پیا جائے اور اس پانی کی برکت جسم کے تمام اعضاء تک پہنچ جائے، اور یہ دونوں مقصد کھڑے ہوکر پانی پینے سے حاصل ہوں گے۔

آبِ زمزم پیٹ بھر کر پینے کے متعلق مستدرک حاکم میں روایت ہےکہ: ایک شخص حضرت عبد اللہ بن عباس کے پاس آئے تو حضرت نے ان سےدریافت کیا: کہاں سے آرہے ہو؟ انہوں نے جواب دیا: میں زمزم پی کر آرہا ہوں، حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے پوچھا:  کیا تم نے اس طریقہ پر زمزم پیا ہے جیسا کہ پینا چاہیے تھا؟ انہوں نے سوال کیا کہ وہ طریقہ کیا ہے؟ تو حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے جواب دیا :جب تم زمزم پیو تو قبلہ رخ ہو جاؤ، اللہ کا نام لو، اور تین سانسوں میں پانی پیو اور پیٹ بھر کر  زمزم پیو، جب پانی پینے سے فارغ ہوجاؤ تو اللہ کی تعریف کرو ،اس لیے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ: ہمارے اور منافقین کے درمیان فرق کرنے والی چیز یہ ہے کہ وہ زمزم سے پیٹ بھر کر پی نہیں سکتے۔

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح (7 / 2747):

" أو النهي عنده ليس على إطلاقه فإنه مخصص بماء زمزم، وشرب فضل الوضوء كما ذكره بعض علمائنا. وجعلوا القيام فيهما مستحباً وكرهوه في غيرهما، إلا إذا كان ضرورةً، ولعل وجه تخصيصهما أن المطلوب في ماء زمزم التضلع ووصول بركته إلى جميع الأعضاء، وكذا فضل الوضوء مع إفادة الجمع بين طهارة الظاهر والباطن، وكلاهما حال القيام أعم، وبالنفع أتم، ففي شرح الهداية لابن الهمام: ومن الأدب أن يشرب فضل ماء وضوئه مستقبلاً قائماً، وإن شاء قاعداً اهـ، وظاهر سياق كلام علي -رضي الله تعالى عنه- أن القيام مستحب في ذلك المقام؛ لأنه رخصة".

المستدرك على الصحيحين للحاكم (1 / 645):

"عن عثمان بن الأسود قال: جاء رجل إلى ابن عباس فقال: من أين جئت؟ فقال: شربت من زمزم فقال له ابن عباس: أشربت منها كما ينبغي؟ قال: و كيف ذاك يا أبا عباس؟ قال: إذا شربت منها فاستقبل القبلة و اذكر اسم الله و تنفس ثلاثاً و تضلع منها، فإذا فرغت منها فاحمد الله؛ فإن رسول الله صلى الله عليه و سلم قال: آية بيننا و بين المنافقين أنهم لايتضلعون من زمزم.

 هذا حديث صحيح على شرط الشيخين و لم يخرجاه  إن كان عثمان بن الأسود سمع من ابن عباس". فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144103200304

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں