بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

زیر ضمانت رقم پر زکوۃ کا حکم


سوال

 1:اگر مکان رہائش کے لئے لیا ہے تو کیا اس کے ایڈوانس پر زکوۃ واجب ہے؟اور اگر مکان تجارت یعنی کمرشل مقاصد کے لیے کرائے پر لیا ہے تو کیا اس کے ایڈوانس پر زکوۃ واجب ہے؟

 3:کیا زکوۃ ادا کرتے وقت رشتے داروں کو  ترجیح دینی چاہیے؟

4:اگر کوئی ضرورت مند ہوتو  کیا اس بات کا بھی خیال رکھنا چاہیے کہ یہ شخص خرچ کرتے ہوئے فضول ضائع نہیں کرتا؟

جواب

اگر مکان رہائش کے لیے لیا ہے تو اس کی ایڈوانس رقم پر زکوۃ واجب نہیں ، اور جو رقم مالک مکان کرایہ دار سے بطور سیکورٹی ایڈوانس وصول کرتا ہے ، یہ رقم ابتدا اور اصل کے اعتبار سے امانت ہوتی ہے ، لیکن کرایہ دار کی طرف سے  مالک کو عرفاً  اس کے  استعمال کی اجازت ہوتی ہے ،اس لیے انتہاءً یہ قرض شمار ہوتی ہے ۔

صورت مسئولہ میں  کرایہ کے مکان کے لیے دی گئی ایڈوانس رقم کا مالک کرایہ دار ہے ، لہذا اس کی زکوۃ کرایہ دار کے ذمہ واجب ہوگی ،خواہ مکان رہائش کے لیے کرایہ پر لیاہو یا کمرشل مقاصد کے لیے،البتہ اس رقم کی زکات کی ادائیگی فوری طور پر لازم نہیں ہے، بلکہ  مذکورہ رقم کی وصولی کے بعد سابقہ تمام سالوں کی زکات دینا لازم ہوگی، تاہم اگر زکات کا سال پورا ہوجائے تو وصولی سے پہلے بھی سال پورا ہونے پر اس کی زکات ادا کرسکتے ہیں۔

فتاوی شامی میں ہے :

"واعلم أن الديون عند الإمام ثلاثة: قوي، ومتوسط، وضعيف؛ (فتجب) زكاتها إذا تم نصابا وحال الحول، لكن لا فورا بل (عند قبض أربعين درهما من الدين) القوي كقرض (وبدل مال تجارة) فكلما قبض أربعين درهما يلزمه درهم (و) عند قبض (مائتين منه لغيرها) أي من بدل مال لغير تجارة وهو المتوسط كثمن سائمة وعبيد خدمة ونحوهما مما هو مشغول بحوائجه الأصلية كطعام وشراب وأملاك."

(کتاب الزکاۃ، باب مال الزکاۃ ، ج :2 ، ص : 305 ،ط : سعید)

فتاوٰی ہندیہ میں ہے:

"وأما سائر الديون المقر بها فهي على ثلاث مراتب عند أبي حنيفة - رحمه الله تعالى - ضعيف، وهو كل دين ملكه بغير فعله لا بدلا عن شيء نحو الميراث أو بفعله لا بدلا عن شيء كالوصية أو بفعله بدلا عما ليس بمال كالمهر وبدل الخلع والصلح عن دم العمد والدية وبدل الكتابة لا زكاة فيه عنده حتى يقبض نصابا ويحول عليه الحول. ووسط، وهو ما يجب بدلا عن مال ليس للتجارة كعبيد الخدمة وثياب البذلة إذا قبض مائتين زكى لما مضى في رواية الأصل وقوي، وهو ما يجب بدلا عن سلع التجارة إذا قبض أربعين زكى لما مضى كذا في الزاهدي."

(كتاب الزكاة، الباب الأول في تفسير الزكاة وصفتها وشرائطها، 175/1، ط: دار الكتب العلمية)

آپ کے مسائل اور ان کے حل میں ہے:

"کرایہ دار سے ایڈوانس لی ہوئی رقم کا شرعی حکم:

س… مالکِ مکان کا کرایہ دار سے ایڈوانس رقم لینا امانت ہے یا قرضہ ہے؟
ج… ہے تو امانت، لیکن اگر کرایہ دار کی طرف سے استعمال کی اجازت ہو  (جیسا کہ عرف یہی ہے) تو یہ قرضہ شمار ہوگا۔"

(کرایہ دار سے ایڈوانس لی ہوئی رقم کاشرعی حکم، 167/7، ط: مکتبہ لدھیانوی)

2:فقیر  رشتہ داروں کو زکات دینے میں دوہرا اجر ہے۔ ایک زکات کی ادئیگی کا ، دوسراصلہ رحمی کا۔

سنن ابن ماجہ میں ہے :

"عن سلمان بن عامر الضبي، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " الصدقة على المسكين صدقة، وعلى ذي القرابة اثنتان: صدقة وصلة ."

ترجمہ : فقیر پر صدقہ کرنے میں صدقے کاثواب ہے ، اور رشتہ دار پر صدقہ کرنے میں دو اجر ہیں : صدقہ کا اجر ، صلہ رحمی کااجرَ۔

(کتاب الزكوة ، باب فضل لاصدقه،ج:1 ، ص:591 ،ط : دار احياء التراث العربي )

فتاوی شامی میں ہے :

"وقيد بالولاد لجوازه لبقية الأقارب كالإخوة والأعمام والأخوال الفقراء بل هم أولى؛ لأنه صلة ‌وصدقة.وفي الظهيرية: ويبدأ في ‌الصدقات بالأقارب، ثم الموالي ثم الجيران، ولو دفع زكاته إلى من نفقته واجبة عليه من الأقارب جاز إذا لم يحسبها من النفقة بحر وقدمناه موضحا أول الزكاة."

3:زکوۃ کے لیے ان مصارف کا انتخاب کرنا چاہیےجہاں زکوۃ کی رقم مفید اور نیک کاموں میں خرچ ہوتی ہو ، تاکہ زیادہ سے زیادہ اجر وثواب کا مستحق ہو سکے، البتہ فضول خرچ کرنے والے فقیر کو دینے سے بھی زکوۃ ادا ہو جائے گی ۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(و) كره (نقلها إلا إلى قرابة) بل في الظهيرية لا تقبل صدقة الرجل وقرابته محاويج حتى يبدأ بهم فيسد حاجتهم (أو أحوج)»أو أصلح أو أورع أو أنفع للمسلمين (أو من دار الحرب إلى دار الإسلام أو إلى طالب علم) وفي المعراج التصدق على العالم الفقير أفضل (أو إلى الزهاد أو كانت معجلة) قبل تمام الحول فلا يكره خلاصة."

(کتاب الزكوة ، فصل في مصرف الزكوة ،ج: 2 ، ص:353 ، ط : سعيد)

وفیہ ایضا:

" مصرف الزکوۃهو فقير،( وهو من له أدنى شيء) أي دون نصاب أو قدر نصاب غير نام مستغرق في الحاجة."

(کتاب الزكوة ، فصل في مصرف الزكوة ،ج: 2 ، ص: 339 ، ط : سعيد)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144408101441

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں