بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

4 ذو القعدة 1445ھ 13 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

زوجہ متعنت کے لیے خلاصی حاصل کرنے کا طریقہ


سوال

میری بیٹی کی شادی کے چھ  سال ہو گئے، شوہر کے ظلم و ستم سے تنگ آگئی ہے، شوہر نان نفقہ بھی ادا نہیں کررہا اور حقوقِ زوجیت بھی ادا نہیں کررہاہے،ہمارے گھر چھوڑ دیتا ہے،  میری بیٹی  مہینوں ہمارے گھر بیٹھی رہتی ہے، شوہر اس کا حال تک نہیں پوچھتا، چھ سال ہو گئے کوئی اولاد نہیں ہے۔الغرض کسی قسم کے حقوق کی ادائیگی کے لیے شوہر تیار نہیں ہے، یہاں تک جب بیٹی ہمارے گھر سے شوہر کے گھر جاتی ہے تو شوہر سے پوچھنا پڑتا ہے، اس سے اجازت لینی پڑتی ہے۔سات آٹھ ماہ شوہر نے رکھا، اس کے بعد سے ہمارے پاس ہے۔شوہر نہ طلاق دے رہا ہے اور نہ ہی خلع کے لیے تیار ہورہاہے۔

اب میری بیٹی مزید اس کے ساتھ بندھ کر نہیں  رہ سکتی ہے اور خلاصی چاہتی ہے تو ہمارے لیے اس سے خلاصی حاصل کرنا کیسے ممکن ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر سائل کا بیان حقیقت پر مبنی ہے کہ اس کا داماد باوجود استطاعت کے اپنی  بیوی(سائل کی بیٹی) کو نان ونفقہ نہیں دیتا،اور بیوی کی خبر گیری نہیں کرتا،نیز  بیوی کے پاس اپنے نان ونفقہ  کا کوئی  انتظام نہیں ہے اور سائل کا داماد طلاق یا خلع کیلئے بھی تیار نہیں ہورہا ہے تو ایسی صورت میں سائل کی بیٹی کے لئے شوہر سے خلاصی حاصل کرنے کاطریقہ یہ ہے کہ سائل کی بیٹی  کسی مسلمان جج کی عدالت میں اپنے شوہرکےخلاف نان ونفقہ نہ دینے  کی بناءپرفسخ ِنکاح کا مقدمہ دائر کرے،اور اولاً اپنے نکاح کو شرعی شہادت کےذریعے ثابت کرے اور یہ ثابت کرے کہ میرا شوہر باوجود قدرت کے مجھے نان ونفقہ  نہیں دیتا اور  میرے پاس نان ونفقہ کا کوئی اور انتظام  بھی نہیں ہے ۔

اس کے بعد سائل کی بیٹی  عدالت  کے  سامنے شرعی شہادت کے ذریعہ اپنا مدعا ثابت کرے ،پھر عدالت کی طرف سے  پوری تحقیق  کے بعد، اگر سائل کی بیٹی  کا دعوی درست ثابت ہو کہ باوجود وسعت کے خرچ نہیں دیتا ،تو اس کے شوہر سے کہاجائےکہ اپنی عورت کے حقوق ادا کرو یاطلاق دو ، ورنہ ہم تفریق کردیں گے،اسکے بعد بھی اگر وہ کسی صورت پر عمل نہ کرے تو عدالت نکاح فسخ کردے،جس کےبعد سائل کی بیٹی اپنی عدت (پوری تین ماہواریاں)گزارکردوسری جگہ نکاح کرنے کیلئے خود مختار ہو جائے گی۔

حیلہ ناجزۃ میں ہے :

وأما المتعنت الممتنع عن الإنفاق ففي مجموع الأمير مانصه:إن منعها نفقة الحال فلها نفقة القيام فإن لم يثبت عسره أنفق أو طلق وإلا طلق عليه.قال محشيه قوله:وإلا طلق أي طلق عليه الحاكم من غير تلوم إلي أن قال:وإن تطوع بالنفقة قريب أوأجنبي فقال ابن القاسم لها أن تفارق لأن الفراق قد وجب لها.وقال ابن عبدالرحمن لا مقال لها لأن سبب الفراق هو عدم النفقة قد انتهي وهو الذي تقضيه المدونة كما قال ابن المناصف۔

(الحیلۃ الناجزۃ،الروايةالثالثة والعشرون ص:150،ط: دارالإشاعت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144306100683

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں