لفظ ”ض“ کا مخرج کیا ہے ایک مفتی صاحب فرمارہے تھے جیسے عرب دال کو موٹا کرکے پڑھتے ہیں وہ مخرج ہے اس کے علاوہ جیسے ہمارے ہاں پڑھا جاتا ہے اس سے نماز فاسد ہوجاتی ہے اور اسی طریقہ کا اعتقاد رکھتاہو کہ یہی مخرج صحیح ہے تو مرتد ہوجاۓ گا اس کی وضاحت فرما دیں۔
واضح رہے کہ "ض" کو اس کے مخرج سے ہی پڑھنا چاہیے، "ض" کا تلفظ "د"یا"ظاء" کرنا غلط ہے، ض کا مخرج دال اور ظاءدونوں سے الگ حافہ لسان یعنی زبان کی کروٹ ہے جب زبان کی کروٹ اضراس علیایعنی اوپر کی داڑھ کی جڑسے مل جائے،نیزحرف ض کی آواز دال اورظاءسے الگ ہے،البتہ لفظی شناخت کے لیے یہ کہہ سکتے ہیں کہ ض کی آواز ظ کے ساتھ مشابہت دال کی بہ نسبت زیادہ ہے کیونکہ ض اورظاء میں صرف ایک صفت کا فر ق ہےیعنی ض مستطیل ہے اور ظاء قصیر جبکہ ض اور دال میں سات صفتوں کا فرق ہے لیکن مشابہت سےبھی صرف مشارکت فی بعض الصفات مرادہے ناکہ بعینہ اس لفظ کی ادائیگی ۔ لہذاصورت مسئولہ میں ض کی ادائیگی پر قدرت رکھتے ہوئے قصدا دال یاظاء پڑھنے سے نمازفاسد ہوجائی گی ،البتہ کوشش کے باوجود ض کو،دال ،ظاءیا اس کے مشابہ پڑھنے سے نمازہوجائی گی ۔
باقی ض کو، دال ،ظاءیااس کےمشابہ پڑھنے سے ارتدار کااعتقاد رکھناصحیح نہیں ہے۔
جمال القرآن( ص:18) میں ہے:
"مخرج 8:ض کا ہے اور وہ حافہ لسان یعنی زبان کی کروٹ داہنی یابائیں سے نکلتا ہے جب کہ اضراس علیا یعنی اوپر کی داڑھوں کی جڑسے لگادیں اور بائیں طرف سے آسان ہے اور دونوں طرف سے ایک دفعہ میں نکالنا بھی صحیح ہے مگر مشکل ہے اور اس حرف کو حافیہ کہتے ہیں اور اس حرف میں اکثر لوگ بہت غلطی کرتے ہیں اس لیے کسی مشاق قاری سے اس کی مشق کرنا ضروری ہے ،اس حرف کو دال پر یاباریک یا دال کے مشابہ جیسا کہ آج کل اکثر لوگوں کے پڑھنے کی عادت ہے ایسا ہرگز نہیں پڑھنا چاہیے یہ بالکل غلط ہے ۔اسی طرح خالص ظاء پڑھنا بھی غلط ہے البتہ اگر ضاد کو اس کےصحیح مخرج سے صحیح طور پر نرمی کے ساتھ آواز کو جاری رکھ کر اور تمام صفات کا لحاظ کرکے ادا کیا جائے تواس کی آواز سننے میں ظاء کی آواز کے ساتھ بہت زیادہ مشابہ ہوتی ہے دال کے مشابہ بالکل نہیں ہوتی ۔"
المقدمة الجزریة"میں ہے:
"( والضاد ) تخرج ( من حافته ) أي من حافة اللسان ( إذ وليا الاَضراس ) أي مع ما يليها من الأضراس ( من أيسر أو يمناها ) أي إما من الجانب الأيسر أو الجانب الأيمن ."
متن مقدمۃ الجزریۃ،باب مخارج الحروف(ص:4)ط:قدیمی کتب خانہ کرچی
التفسیرا لکبیر"میں ہے:
"المختار عندنا أن اشتباه الضاد بالظاء لا يبطل الصلاة ويدل على أن المشابهة حاصلة بينهما جدا والتمييز عسر فوجب أن يسقط التكليف بالفرق بيان المشابهة من وجوه الأول أنهما من الحروف المجهورة والثاني أنهما من الحروف الرخوة والثالث أنهما من الحروف المطبقة والرابع أن الظاء وإن كان مخرجه من بين طرف اللسان وأطراف الثنايا العليا ومخرج الضاد من أول حافة اللسان وما يليها من الأضراس إلا أنه حصل في الضاد انبساط لأجل رخاوتها وبهذا السبب يقرب مخرجه من مخرج الظاء."
(التفسیر الکبیر ،سورۃ الفاتحۃ المسئلۃ العاشرۃ(1/ 60)ط:دارالکتب العلمیۃ بیروت)
امداد الفتاوی میں ہے:
"سوال (۲۳۳) : قدیم ۱/ ۲۶۷- ضاد کو کس طرح پڑھنا چاہیے اور اکثر فقہاء کا قول کیا ہے اور اکثر کتب دینیات میں اس ذکر میں کیا لکھتے ہیں ؟
الجواب: في الجزریة: والضاد من حافته إذ ولي الأضراس من أیسر أویمناها.
جب مخرج معلوم ہوگیا تو ضاد کے ادا کرنے کا یہی طریقہ ہے کہ اس کے مخرج سے نکالا جاوے۔ اس نکالنے سے بوجہ عدمِ مہارت خواہ کچھ ہی نکلے عفو ہے اور اگر قصداً دال یا ظاء پڑھے وہ جائز نہیں، جیسا کہ بعض نے دال پڑھنے کی عادت کرلی ہے۔ "
فتاویٰ قاضي خان میں ہے:
"و إن ذكر حرفًا مكان حرف و غير المعني، فإن أمكن الفصل بين الحرفين من غير مشقة كالطاء مع الصاد فقرأ: الطالحات مكان الصالحات، تفسد صلاته عند الكل، و إن كان لايمكن الفصل بين الحرفين الا بمشقة كالظاء مع الضاد و الصاد مع السين، و الطاء مع التاء، اختلف المشائخ فيه، قال أكثرهم لاتفسد صلاته ... و لو قرأ الدالين بالدال تفسد صلاته".
(فتاوی قاضی خان،كتاب الصلاة، فصل في القراءة في القرآن، ١ / ١٢٩ - ١٣١، ط: دار الكتب العلمية )
الدرالمختارمع ردالمحتار"میں ہے:
"ولو زاد كلمةً أو نقص كلمةً أو نقص حرفاً، أو قدمه أو بدله بآخر نحو من ثمره إذا أثمر واستحصد - تعالى جد ربنا - انفرجت بدل - انفجرت - إياب بدل - أواب - لم تفسد ما لم يتغير المعنى إلا ما يشق تمييزه كالضاد والظاء فأكثرهم لم يفسدها.
(قوله: إلا ما يشق إلخ) قال في الخانية والخلاصة: الأصل فيما إذا ذكر حرفاً مكان حرف وغير المعنى إن أمكن الفصل بينهما بلا مشقة تفسد، وإلا يمكن إلا بمشقة كالظاء مع الضاد المعجمتين والصاد مع السين المهملتين والطاء مع التاء قال أكثرهم: لاتفسد. اهـ. وفي خزانة الأكمل: قال القاضي أبو عاصم: إن تعمد ذلك تفسد، وإن جرى على لسانه أو لايعرف التمييز لاتفسد، وهو المختار، حلية. وفي البزازية: وهو أعدل الأقاويل، وهو المختار اهـوفي التتارخانية عن الحاوي: حكى عن الصفار أنه كان يقول: الخطأ إذا دخل في الحروف لايفسد؛ لأن فيه بلوى عامة الناس لأنهم لايقيمون الحروف إلا بمشقة. اهـ. وفيها: إذا لم يكن بين الحرفين اتحاد المخرج ولا قربه إلا أن فيه بلوى العامة كالذال مكان الصاد أو الزاي المحض مكان الذال والظاء مكان الضاد لاتفسد عند بعض المشايخ. اهـ."
(الدرالمختار مع ردالمحتار کتاب الصلاۃ،باب مایفسد الصلاۃ ومایکرہ فیھا(1/ 632-633)ط: ایچ ایم سعید کراچی
الفتاوي الھندیة" میں ہے:
"و إن ذكر حرفًا مكان حرف و غير المعني، فإن أمكن الفصل بين الحرفين من غير مشقة كالطاء مع الصاد فقرأ الطالحات مكان الصالحات تفسد صلاته عند الكل وإن كان لا يمكن الفصل بين الحرفين إلا بمشقة كالظاء مع الضاد والصاد مع السين والطاء مع التاء اختلف المشايخ قال أكثرهم لا تفسد صلاته .هكذا في فتاوى قاضي خان .وكثير من المشايخ أفتوا به قال القاضي الإمام أبو الحسن والقاضي الإمام أبو عاصم : إن تعمد فسدت وإن جرى على لسانه أو كان لا يعرف التميز لا تفسد وهو أعدل الأقاويل والمختار هكذا في الوجيز للكردري ومن لا يحسن بعض الحروف ينبغي أن يجهد ولا يعذر في ذلك."
(الفتاوی الھندیہ کتاب الصلاۃ الباب الرابع فی صفۃ الصلاۃ،الفصل الخامس فی زلۃ القاری(1/ 79)ط:حقانیہ پشاور)
مزیدتفصیل کےلیے درج ذیل کتب کا مطالعہ فرمالیجے :
کفایت المفتی ،کتاب التفسیر والتجوید"ضاد "کو مشابہ "ظاء"پڑھنادرست ہےیادال پرپڑھنا(2/ 131)ط :دارالاشاعت
فتاوی رشیدیہ ،کتاب الصلاۃ"ضاد"کو "دال"کے مشابہ پڑھنا(ص:349- 350)ط:عالمی مجلس تحفظ اسلام کراچی
امداد الاحکام،کتاب الصلاۃ"ضاد کودوادپڑھنایا ظاء پڑھنا(1/ 569) ط:
فتاوی دارالعلوم دیوبند،کتاب الصلاۃ "ضاد کا مخرج"(4/ 85)ط:دارالاشاعت
فتاوی فریدیہ کتاب الصلاۃ ،باب القراءۃ فی الصلاۃ"حرف ضاد میں اختلاف علماءاور تطبیق کی تفصیل( 2 /450- 451)ط:دارالعلوم صدیقیہ زروبی
فتاوی مفتی محمود ،کتاب الصلاۃ ،باب فی القراءۃ"تحقیق مخرج ضاد"( 2/ 489)ط:جمیعت پبلشینز
مجموعۃ الفتاوی،کتاب الصلاۃ "ضاد مشابہ ظاء کےہے یانہیں"(1/ 250- 251)ط:ایچ ایم سعیدکراچی
(جواہر الفقہ:حرف ضادکا صحیح مخرج اور اس کےاحکام(3/ 21) ط. مكتبه دار العلوم)
الفتاوی السعدیۃ فی الفروغ الحنفیۃ ،کتاب الصلاۃ"فتوی درحکم خواندن ظاء معجمہ بجائےضاد معجمہ "(ص:42)ط:اٰسی لکھنوء
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144308101394
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن