میں نے اپنے بیٹے کے لیے "ذونین انجم" نام رکھا ہے۔کیا اس نام رکھنے کی شریعت میں گنجائش ہیں؟ اور اس کی معنی کیا ہیں؟
"ذو نین" یہ نام تتبع اور تلاش کے بعد نہ عربی لغت میں ملا اور نہ ہی فارسی لغت میں ملا۔
"انجم" (جیم کے پیش کے ساتھ) "نجم" کی جمع ہے، اس کا معنی ہے: ستارے۔ اور اگر یہ جیم کے زبر کے ساتھ ہو، یعنی "اَنجَم" تو اس کا معنی ہوگا: سب سے زیادہ ظاہر۔ (القاموس الوحید، المادۃ:ن، ج، م، ص:1615، ط:ادارۃ الاسلامیات)
مذکورہ نام پہلے جز (ذونین) کے اعتبار سے مجہول المعنی ہونے کی وجہ سے رکھنا درست نہیں ہے، تاہم اگر ذونین سے مراد "ذوالقرنین" ہے تو یہ لفظ قرآنِ مجید میں آیا ہے، جس کا لفظی معنی ہے: دوسینگوں والا، اور یہ مشہور یونانی بادشاہ سکندر اعظم سے تین سو سال پہلے آیا تھا، اور مسلمان عادل بادشاہ تھا جو مشرق اور مغرب کے ممالک پر حکمران تھا، لہذا اس اعتبار سے بچے کا نام "ذوالقرنین انجم" رکھنا درست ہے۔
البداية والنهاية میں ہے:
"فأما ذو القرنين الثاني فهو اسكندر بن فيلبس بن مصريم بن هرمس بن ميطون بن رومي بن لنطي بن يونان بن يافث بن يونة بن شرخون بن رومة بن شرفط بن توفيل بن رومي بن الأصفر بن يقز بن العيص بن إسحق بن إبراهيم الخليل كذا نسبه الحافظ ابن عساكر في تاريخه المقدوني اليوناني المصري باني اسكندرية الذي يؤرخ بأيامه الروم وكان متأخرًا عن الأول بدهر طويل كان هذا قبل المسيح بنحو من ثلاثمائة سنة،"
(باب فضائل موسى عليه السلام، ج:2، ص:105، ط:مكتبة المعارف)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144206200372
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن