ذوالقرنین نبی ہیں یا بادشاہ؟
واضح رہے کہ قرآن کریم میں حضرت ذوالقرنین علیہ الرحمۃ کے متعلق صرف اتنا تذکرہ ہے کہ وہ ایک نیک صالح عادل بادشاہ تھے، جنہوں نے مشرق و مغرب کے ممالک فتح کیے اور ان میں عدل و انصاف قائم کیا۔ باقی وہ کون تھے؟ کس زمانہ میں تھے؟ وغیرہ، اس کی تفصیل نہ قرآن کریم میں ہے اور نہ ہی کسی صحیح حدیث میں بلکہ یہ تفصیلات تاریخی روایات میں ہیں اور مفسرین نے بھی جو کچھ اس کے متعلق لکھا وہ انہی تاریخی روایات کا مجموعہ ہے۔ اسی لیے ان میں مختلف اقوال ہیں ،باقی حضرت ذوالقرنین کے نبی ہونے میں اگرچہ علماء کا اختلاف ہے، مگر مؤمن صالح ہونے پر سب کا اتفاق ہے ، حافظ ابن کثیر کے ہاں ان کا نبی ہونا راجح ہے، جب کہ جمہور کا قول یہ ہے کہ وہ نہ نبی تھے نہ فرشتہ، بلکہ ایک نیک صالح مسلمان تھے۔
مزید تفصیل کے لیےتفسیر معارف القرآن (مولانا مفتی محمد شفیع صاحب ؒ)جلد نمبر ۵ ملاحظہ کیجیے۔
في البدایة والنهایة :
"ذكر الله تعالى ذا القرنين هذا وأثنى عليه بالعدل، وأنه بلغ المشارق والمغارب، وملك الأقاليم وقهر أهلها، وسار فيهم بالمعدلة التامة والسلطان المؤيد المظفر المنصور القاهر المقسط.
والصحيح: أنه كان ملكا من الملوك العادلين وقيل كان نبيا.وقيل رسولا.وأغرب من قال ملكا من الملائكة.وقد حكي هذا عن أمير المؤمنين عمر بن الخطاب: فإنه سمع رجلا يقول لآخر يا ذا القرنين فقال: مه ما كفاكم أن تتسموا بأسماء الأنبياء حتى تسميتم بأسماء الملائكة ذكره السهيلي.وقد روى وكيع عن إسرائيل عن جابر عن مجاهد عن عبد الله بن عمرو قال كان ذو القرنين نبيا.وروى الحافظ ابن عساكر من حديث أبي محمد بن أبي نصر، عن أبي إسحاق بن إبراهيم بن محمد بن أبي ذؤيب، حدثنا محمد بن حماد، أنبأنا عبد الرزاق، عن معمر، عن ابن أبي ذؤيب، عن المقبري عن أبي هريرة قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: لا أدري أتبع كان لعينا أم لا ولا أدري الحدود كفارات لأهلها أم لا ولا أدري ذو القرنين كان نبيا أم لا .وهذا غريب من هذا الوجه، وقال إسحاق بن بشر عن عثمان بن الساج، عن خصيف، عن عكرمة، عن ابن عباس قال: كان ذو القرنين ملكا صالحا رضي الله عمله وأثنى عليه في كتابه وكان منصورا، وكان الخضر وزيره....الخ."
(خبر ذي القرنین،ج:2،ص:122،ط: دار احیاء التراث العربي)
فقط و اللہ أعلم
فتوی نمبر : 144406101683
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن