ذوالقرنین بادشاہ کا تعارف کرادیں اور بتائیں کہ ایسے کتنے بادشاہ گزرے جنہوں نے پوری دنیا پر حکومت کی؟
(۱)واضح رہے کہ ذوالقرنین کے نام سے دو شخصیات مشہور ہوئیں، جن میں سے آخری کا لقب اسکندر تھا، ارسطو ان کا وزیر تھا، جس کو اسکندر یونانی مقدومی بھی کہتے ہیں ، ان کا زمانہ حضرت عیسی علیہ السلام سے تقریباً تین سو سال پہلے تھا، قران مجید میں جس ذوالقرنین کا تذکرہ ہے وہ ذوالقرنین اول ہیں، جن کے نام کے بارے میں مختلف اقوال موجود ہیں : بعض حضرات نے عبد اللہ بن ضحاك بن معد بیان کیا، بعض نے مصعب بن عبد الله بن قنان، بعض نے صعب بن ذی مرائد ، اور بعض نے افريدون بن اسفيان۔قران مجید میں ان کے نبی اور غیر نبی ہونے کا تذکرہ نہیں ملتا ، اس طرح کسی صحیح حدیث میں بھی اس کی تصریح نہیں ملی، تاہم تاریخی روایات میں ان کے نبی ہونے اور نہ ہونے دونوں قسم کے اقوال ملتے ہیں، بعض محققین کے نزدیک نبی ، اور بعض کے نزدیک ولی اور عادل بادشاہ تھے، علامہ ابن کثیر نے دوسرے قول کو راجح قرار دیا۔ سورت کہف (آیت ۸۳ سے ۹۸ تک ) میں ان کا واقعہ مذکور ہے:
"وَيَسۡـَٔلُونَكَ عَن ذِي ٱلۡقَرۡنَيۡنِۖ قُلۡ سَأَتۡلُواْ عَلَيۡكُم مِّنۡهُ ذِكۡرًا 83إِنَّا مَكَّنَّا لَهُۥ فِي ٱلۡأَرۡضِ وَءَاتَيۡنَٰهُ مِن كُلِّ شَيۡءٖ سَبَبٗا 84 فَأَتۡبَعَ سَبَبًا 85 حَتَّىٰٓ إِذَا بَلَغَ مَغۡرِبَ ٱلشَّمۡسِ وَجَدَهَا تَغۡرُبُ فِي عَيۡنٍ حَمِئَةٖ وَوَجَدَ عِندَهَا قَوۡمٗاۖ قُلۡنَا يَٰذَا ٱلۡقَرۡنَيۡنِ إِمَّآ أَن تُعَذِّبَ وَإِمَّآ أَن تَتَّخِذَ فِيهِمۡ حُسۡنٗا 86 قَالَ أَمَّا مَن ظَلَمَ فَسَوۡفَ نُعَذِّبُهُۥ ثُمَّ يُرَدُّ إِلَىٰ رَبِّهِۦ فَيُعَذِّبُهُۥ عَذَابٗا نُّكۡرٗا 87 وَأَمَّا مَنۡ ءَامَنَ وَعَمِلَ صَٰلِحٗا فَلَهُۥ جَزَآءً ٱلۡحُسۡنَىٰۖ وَسَنَقُولُ لَهُۥ مِنۡ أَمۡرِنَا يُسۡرٗا 88 ثُمَّ أَتۡبَعَ سَبَبًا 89 حَتَّىٰٓ إِذَا بَلَغَ مَطۡلِعَ ٱلشَّمۡسِ وَجَدَهَا تَطۡلُعُ عَلَىٰ قَوۡمٖ لَّمۡ نَجۡعَل لَّهُم مِّن دُونِهَا سِتۡرٗا 90 كَذَٰلِكَۖ وَقَدۡ أَحَطۡنَا بِمَا لَدَيۡهِ خُبۡرٗا 91 ثُمَّ أَتۡبَعَ سَبَبًا 92 حَتَّىٰٓ إِذَا بَلَغَ بَيۡنَ ٱلسَّدَّيۡنِ وَجَدَ مِن دُونِهِمَا قَوۡمٗا لَّا يَكَادُونَ يَفۡقَهُونَ قَوۡلٗا 93 قَالُواْ يَٰذَا ٱلۡقَرۡنَيۡنِ إِنَّ يَأۡجُوجَ وَمَأۡجُوجَ مُفۡسِدُونَ فِي ٱلۡأَرۡضِ فَهَلۡ نَجۡعَلُ لَكَ خَرۡجًا عَلَىٰٓ أَن تَجۡعَلَ بَيۡنَنَا وَبَيۡنَهُمۡ سَدّٗا 94 قَالَ مَا مَكَّنِّي فِيهِ رَبِّي خَيۡرٞ فَأَعِينُونِي بِقُوَّةٍ أَجۡعَلۡ بَيۡنَكُمۡ وَبَيۡنَهُمۡ رَدۡمًا 95 ءَاتُونِي زُبَرَ ٱلۡحَدِيدِۖ حَتَّىٰٓ إِذَا سَاوَىٰ بَيۡنَ ٱلصَّدَفَيۡنِ قَالَ ٱنفُخُواْۖ حَتَّىٰٓ إِذَا جَعَلَهُۥ نَارٗا قَالَ ءَاتُونِيٓ أُفۡرِغۡ عَلَيۡهِ قِطۡرٗا 96 فَمَا ٱسۡطَٰعُوٓاْ أَن يَظۡهَرُوهُ وَمَا ٱسۡتَطَٰعُواْ لَهُۥ نَقۡبٗا 97ﵟقَالَ هَٰذَا رَحۡمَةٞ مِّن رَّبِّيۖ فَإِذَا جَآءَ وَعۡدُ رَبِّي جَعَلَهُۥ دَكَّآءَۖ وَكَانَ وَعۡدُ رَبِّي حَقّٗا 98."
ترجمہ:
"اور یہ لوگ تم سے ذوالقرنین کے بارے میں پوچھتے ہیں کہہ دو کہ : میں ان کا کچھ حال تمہیں پڑھ کر سناتا ہوں، واقعہ یہ ہے کہ ہم نے ان کو زمین میں اقتدار بخشا تھا، اور انہیں ہر کام کے وسائل عطا کیے تھے۔جس کے نتیجے میں وہ ایک راستے کے پیچھے چل پڑے یہاں تک کہ جب وہ سورج کے ڈوبنے کی جگہ پہنچے تو انہیں دکھائی دیا کہ وہ ایک دلدل جیسے (سیاہ) چشمے میں ڈوب رہا ہے، اور وہاں انہیں ایک قوم ملی، ہم نے (ان سے) کہا : اے ذوالقرنین ! (تمہارے پاس دو راستے ہیں) یا تو ان لوگوں کو سزا دو ، یا پھر ان کے معاملے میں اچھا رویہ اختیار کرو، انہوں نے کہا : ان میں سے جو کوئی ظلم کا راستہ اختیار کرے گا، اسے تو ہم سزا دیں گے، پھر اسے اپنے رب کے پاس پہنچا دیا جائے گا، اور وہ اسے سخت عذاب دے گا، البتہ جو کوئی ایمان لائے گا، اور نیک عمل کرے گا تو وہ بدلے کے طور پر اچھے انجام کا مستحق ہوگا، اور ہم بھی اس کو اپنا حکم دیتے وقت آسانی کی بات کہیں گے، اس کے بعد وہ ایک اور راستے کے پیچھے چل پڑے یہاں تک کہ جب وہ سورج کے طلوع ہونے کی جگہ پہنچے تو انہوں نے دیکھا کہ وہ ایک ایسی قوم پر طلوع ہورہا ہے جسے ہم نے اس (کی دھوپ) سے بچنے کے لیے کوئی اوٹ مہیا نہیں کی تھی، واقعہ اسی طرح ہوا، اور ذوالقرنین کے پاس جو کچھ (سازوسامان) تھا، ہمیں اس کی پوری پوری خبر تھی، اس کے بعد وہ ایک اور راستے کے پیچھے چل پڑے یہاں تک کہ جب وہ دو پہاڑوں کے درمیان پہنچے تو انہیں ان پہاڑوں سے پہلے کچھ لوگ ملے جن کے بارے میں ایسا لگتا تھا کہ وہ کوئی بات نہیں سمجھتے انہوں نے کہا : اے ذوالقرنین ! یاجوج اور ماجوج اس زمین میں فساد پھیلانے والے لوگ ہیں، تو کیا ہم آپ کو کچھ مال کی پیش کش کرسکتے ہیں، جس کے بدلے آپ ہمارے اور ان کے درمیان کوئی دیوار بنا دیں ؟ ذوالقرنین نے کہا : اللہ نے مجھے جو اقتدار عطا فرمایا ہے، وہی (میرے لیے) بہتر ہے؛ لہذا تم لوگ (ہاتھ پاؤں کی) طاقت سے میری مدد کرو، تو میں تمہارے اور ان کے درمیان ایک مضبوط دیوار بنا دوں گا، مجھے لوہے کی چادریں لادو، یہاں تک کہ جب انہوں نے ( درمیانی خلا کو پاٹ کر) دونوں پہاڑی سروں کو ایک دوسرے سے ملا دیا تو کہا کہ : اب آگ دہکاؤ، یہاں تک کہ جب اس (دیوار) کو لال انگارا کردیا تو کہا کہ : پگھلا ہوا تانبا لاؤ، اب میں اس پر انڈیلوں گا، چنانچہ (وہ دیوار ایسی بن گئی کہ) یاجوج ماجوج نہ اس پر چڑھنے کی طاقت رکھتے تھے، اور نہ اس میں کوئی سوراخ بنا سکتے تھے، ذوالقرنین نے کہا : یہ میرے رب کی رحمت ہے ( کہ اس نے ایسی دیوار بنانے کی توفیق دی) پھر میرے رب نے جس وقت کا وعدہ کیا ہے جب وہ وقت آئے گا تو وہ اس (دیوار) کو ڈھا کر زمین کے برابر کردے گا، اور میرے رب کا وعدہ بالکل سچا ہے۔"
(۲) تاریخی روایات میں ذکرہے کہ:دنیا میں چار شخصیات ایسی گذری ہیں جنہوں نے پوری دنیا پر حکمرانی کی جن میں سے دو مسلمان جبکہ دو غیر مسلم ہیں، مسلمان بادشاہوں میں سے ایک حضرت سلیمان علیہ السلام اور دوسرا ذوالقرنین تھے، جبکہ کافر بادشاہوں میں سے ایک نمروذ اور دوسرا بخت نصر تھا۔
البدایہ والنہایہ میں ہے:ــ
"المقدوني اليوناني المصري باني إسكندرية الذي يؤرخ بأيامه الروم، وكان متأخرا عن الأول بدهر طويل كان هذا قبل المسيح بنحو من ثلاثمائة سنة وكان أرطا طاليس الفيلسوف وزيره وهو الذي قتل دارا بن دارا وأذل ملوك الفرس وأوطأ أرضهم، وإنما نبهنا عليه لأن كثيرا من الناس يعتقد أنهما واحد، وأن المذكور في القرآن هو الذي كان أرطا طاليس وزيره فيقع بسبب ذلك خطأ كبير وفساد عريض طويل كثير ، فإن الأول كان عبدا مؤمنا صالح وملكا عادلا وكان وزيره الخضر، وقد كان نبيا على ما قررناه قبل هذا.وأما الثاني فكان مشركا وكان وزيره فيلسوفا وقد كان بين زمانيهما أزيد من ألفي سنة.فأين هذا من هذا لا يستويان ولا يشتبهان إلا على غبي لا يعرف حقائق الأمور."
(البداية والنهاية لابن كثير، كتاب أخبار الماضين، خبر ذي القرنين، 125/2، ط: دار إحياء التراث العربي)
وأیضا فيه:
"ذكر الله تعالى ذا القرنين هذا وأثنى عليه بالعدل، وأنه بلغ المشارق والمغارب، وملك الأقاليم وقهر أهلها، وسار فيهم بالمعدلة التامة والسلطان المؤيد المظفر المنصور القاهر المقسط،
والصحيح: أنه كان ملكا من الملوك العادلين وقيل كان نبيا، وقيل رسولا، وأغرب من قال ملكا من الملائكة. ... . وقد اختلف في اسمه فروى الزبير بن بكار عن ابن عباس: كان اسمه عبد الله بن الضحاك ابن معد، وقيل مصعب بن عبد الله بن قنان بن منصور بن عبد الله بن الأزد بن عون بن نبت بن مالك بن زيد بن كهلان بن سبأ بن قحطان..... وقيل كان اسمه مرزبان بن مرزبة، ذكره ابن هشام وذكر في موضع آخر أن اسمه الصعب بن ذي مرائد وهو أول التبابعة وهو الذي حكم لإبراهيم في بئر السبع.وقيل إنه أفريدون بن أسفيان الذي قتل الضحاك."
(البداية والنهاية لابن كثير، كتاب أخبار الماضين، خبر ذي القرنين، 122/2 ط: دار إحياء التراث العربي)
وفيه أیضا:
"عن أبي إسحاق السبيعي، عن عمرو بن عبد الله الوادعي، سمعت معاوية يقول: ملك الأرض أربعة: سليمان بن داود النبي، عليهما السلام، وذو القرنين، ورجل من أهل حلوان ورجل آخر. فقيل له: الخضر؟ قال: لا.وقال الزبير بن بكار حدثني إبراهيم بن المنذر،عنمحمد بن الضحاك، عن أبيه، عن سفيان الثوري، قال: بلغني أنهملكالأرضكلهاأربعة: مؤمنان وكافران ; سليمان النبي، وذو القرنين، ونمرود، وبخت نصر، وهكذا قال سعيد بن بشير، سواء، وكذا في مختصر تاريخ."
(البداية والنهاية، كتاب أخبار الماضين، خبر ذي القرنين 126/2،ط: دار إحياء التراث العربي)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144602100724
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن