بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

ذوالقرنین بادشاہ تھے ؟


سوال

کیا ذوالقرنین بادشاہ بھی تھے؟

جواب

 ذوالقرنین کو ا للہ تعالیٰ نے بادشاہت سے نوازا تھا ،قرآن کریم میں ذوالقرنین کے متعلق  اتنا تذکرہ  موجود ہے کہ وہ  ایک نیک صالح عادل بادشاہ تھے ،جس نے مشرق و مغرب کے ممالک فتح کیے اور ان میں عدل و انصاف قائم کیا ۔البتہ راجح قول کے مطابق وہ مؤمن صالح تھے پیغمبر نہیں تھے۔ قرآن کریم کی سورۃ الکہف کی آیت 83 سے 98 تک میں ان کا ذکر موجود ہے ۔ 

البدایۃ و النہایۃ میں ہے:

"ذكر الله تعالى ذا القرنين هذا وأثنى عليه بالعدل، وأنه بلغ المشارق والمغارب، وملك الأقاليم وقهر أهلها، وسار فيهم بالمعدلة التامة والسلطان المؤيد المظفر المنصور القاهر المقسط.

والصحيح: أنه كان ملكا من الملوك العادلين وقيل كان نبيا.وقيل رسولا.وأغرب من قال ملكا من الملائكة.وقد حكي هذا عن أمير المؤمنين عمر بن الخطاب: فإنه سمع رجلا يقول لآخر يا ذا القرنين فقال: مه ما كفاكم أن تتسموا بأسماء الأنبياء حتى تسميتم بأسماء الملائكة ذكره السهيلي.وقد روى وكيع عن إسرائيل عن جابر عن مجاهد عن عبد الله بن عمرو قال كان ذو القرنين نبيا.وروى الحافظ ابن عساكر من حديث أبي محمد بن أبي نصر، عن أبي إسحاق بن إبراهيم بن محمد بن أبي ذؤيب، حدثنا محمد بن حماد، أنبأنا عبد الرزاق، عن معمر، عن ابن أبي ذؤيب، عن المقبري  عن أبي هريرة قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:  لا أدري أتبع كان لعينا أم لا ولا أدري الحدود كفارات لأهلها أم لا ولا أدري ذو القرنين كان نبيا أم لا  .وهذا غريب من هذا الوجه، وقال إسحاق بن بشر عن عثمان بن الساج، عن خصيف، عن عكرمة، عن ابن عباس قال: كان ذو القرنين ملكا صالحا رضي الله عمله وأثنى عليه في كتابه وكان منصورا، وكان الخضر وزيره....الخ"

(خبر ذي القرنین،ج:2:ص:122،ط: دار احیاء التراث العربي)

قصص القرآن میں ہے:

’’بعض حضرات کو یہ سخت مغالطہ ہو گیا ہے کہ سکندر مقدونی ہی وہ ذوالقرنین ہے جس کا ذکر قرآن کی سورہ کہف میں کیا گیا ہے، یہ قول باتفاق جمہور علمائے سلف و خلف قطعاً باطل اور جہالت پر مبنی ہے۔ اس لیے کہ قرآن کی تصریحات کے مطابق ذوالقرنین صاحب ایمان اور مرد صالح بادشاہ تھا، اور سکندر مقدونی مشرک اور جابر بادشاہ گزرا ہے جس کے شرک و ظلم کی صحیح تاریخ خود اس کے بعض امرائے دربار نے بھی مرتب کی ہے، اور تمام معاصرانہ شہادتیں بھی اس کے بت پرست اور جابر و ظالم ہونے پر متفق ہیں......مگر ان سب اقوال سے جدا مولانا ابوالکلام نے اس سلسلہ میں جو تحقیق فرمائی ہے، البتہ وہ ضرور قابل توجہ ہے، بلکہ دلائل و براہین کی قوت کے لحاظ سےیہ تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ ان کی تحقیق بلاشبہ صحیح اور قرآن کے بیان کردہ اوصاف اور تاریخی حقائق کی مطابقت کے پیش نظر ہرطرح لایق ترجیح ہے.....‘‘۔

(ذوالقرنین، ج:2 ص:100،107،117 ط:دار الاشاعت)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144506100307

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں