بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ذو الحجہ کے مہینے میں مکہ مکرمہ پہنچنے والے حاجی تیس دن رہنے کی نیت کی صورت میں نماز میں قصر کرے یا اتمام؟


سوال

میں پانچ  ذی الحجہ کو مکہ مکرمہ آیا ہوں، اور یہاں میں تیس دن رہوں گا، لیکن تین دن بعد ارکان حج کی ادائیگی کے لیے جاؤں گا، تو ابھی ہم یہاں پر مقیم کہلائیں  گے یا مسافر؟نیز اپنی جماعت کروانے کی صورت میں  قصر کریں گے یا پوری پڑھیں گے؟

جواب

واضح رہے کہ حج کے افعال کی ادائیگی  کے لیے حاجی پر منیٰ، مزدلفہ اور میدان عرفات جانا لازم ہے، اور یہ تمام مقامات مکہ مکرمہ کے تابع نہیں ہیں ، بلکہ مستقل الگ الگ مقامات ہيں، لہذا صورت مسئولہ میں سائل حج سے قبل مکہ مکرمہ میں   شرعاًمسافر ہے، لہذا انفرادی نماز کی ادائیگی  یا مسافر امام کی اقتداء میں نماز کی ادائیگی کی صورت میں قصر کرے گا اور اگر مقیم امام  کی اقتداء میں نماز ادا کرے گا تو اتمام کرے گا، نیز حج سے فراغت کے بعد  ،اگر سائل مکہ مکرمہ میں 15 دن گزارنے کی  نیت کرتا ہے، تو اس صورت میں سائل پر  اتمام کرنا لازم ہوگا۔

فتاوی شامی میں ہے:

"فلو دخل الحاج ‌مكة ‌أيام ‌العشر لم تصح نيته لانه يخرج إلى منى وعرفة فصاركنية الاقامة في غير موضعها، وبعد عوده من منى تصح."

(‌‌كتاب الصلاة،‌‌باب صلاة المسافر،126/2، ط:سعيد)

بدائع الصنائع  میں ہے:

"وذكر في كتاب المناسك أن الحاج إذا دخل مكة ‌في ‌أيام ‌العشر ونوى الإقامة خمسة عشر يوما أو دخل قبل أيام العشر لكن بقي إلى يوم التروية أقل من خمسة عشر يوما ونوى الإقامة لا يصح؛ لأنه لا بد له من الخروج إلى عرفات فلا تتحقق نية إقامته خمسة عشر يوما فلا يصح."

(كتاب الصلاة،فصل بيان ما يصير المسافر به مقيما،97/1، ط:سعيد)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144412100506

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں