ذکران نام کا کیا مطلب ہے؟
صورتِ مسئولہ میں مذکور لفظ کا درست تلفظ"ذُكْرَانْ"(یعنی ذال پر پیش،کاف پر سکون ،راء پر زبر، پھر الف اورآخر میں نون ساکن کے ساتھ) ہے، جو"ذَكَرْ"کی جمع ہے اور" مذکر "کے معنی میں ہے، قرآنِ کریم میں بھی اسی معنی میں اس کا استعمال ہوا ہے،لہذا مذکورہ نام زیادہ مناسب نہیں ہے، تاہم بہتر یہ ہے کہ انبیاء کرام یا صحابہ کرام کے ناموں میں سے کوئی نام رکھاجائے۔
قرآنِ کریم میں ہے:
"لِلَّهِ مُلۡكُ ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَٱلۡأَرۡضِ يَخۡلُقُ مَا يَشَآءُ يَهَبُ لِمَن يَشَآءُ إِنَٰثا وَيَهَبُ لِمَن يَشَآءُ ٱلذُّكُورَ ٤٩ أَوۡ يُزَوِّجُهُمۡ ذُكۡرَانا وَإِنَاثا وَيَجۡعَلُ مَن يَشَآءُ عَقِيمًا إِنَّهُ عَلِيم قَدِير ٥٠".
(سورۃ الشوری،آیت:۴۹،۵۰)
لسان العرب میں ہے:
"والتذكير: خلافُ التأنيث، والذَكَرُ خلاف الأُنثى، والجمعُ: ذُكورٌ وذَكورةٌ وذِكارٌ وذِكارةٌ وذُكرْانٌ وذِكَرَةٌ".
(لسان العرب،فصل الذال المعجمۃ،مادۃ:ذکر،ج:۴،ص:۳۰۹،ط:دار صادر۔بیروت)
فقظ والله اعلم
فتوی نمبر : 144307101964
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن