بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

دادا کی وراثت میں پوتوں کا حصہ


سوال

کیا والد کے انتقال کے بعد پوتوں کا  دادا کی میراث میں حق بنتا ہے؟ جب کہ دادا زندہ ہو۔

جواب

وراثت کا استحقاق مورِث کی موت کے بعد  ثابت ہوتا ہے؛  اس لیے کسی شخص کے انتقال کے وقت اس کے جو ورثاء موجود ہوں  وہی اس کے وارث ہوتے ہیں، اس کی زندگی میں فوت ہونے والے اس کے وارث نہیں بنتے، لہذا اگر بیٹے کا انتقال والد کی زندگی میں ہی ہوجائے تو اس کے بچے (اپنے چچا کی موجودگی میں) اپنے دادا کی میراث میں شرعاً حق دار نہیں ہوں گے،  ایسی صورت میں اگر پوتے ضرورت مند ہوں اور دادا کو اندازہ ہوکہ میرے بعد میرے بیٹے پوتوں کو  تبرعاً کچھ نہیں دیں گے تو دادا کو  چاہیے کہ وہ اپنی خوشی سے پوتوں کو کچھ دے کے قبضہ دے دے یاایک تہائی ترکہ کے اندر اندر پوتوں کے لیے وصیت کرجائے، دادا اپنے ترکہ  کے  ایک تہائی کے اندر اندر اپنے پوتوں کے لیے جتنی چاہے وصیت کرسکتا ہے، لیکن وصیت کی صورت میں یہ حصہ میراث نہیں کہلائے گا، لہذا اگر دادا وصیت کے بغیر انتقال کرجائے تو اس کی وراثت میں پوتوں کا شرعاً کوئی حصہ نہیں ہوگا۔

 ہاں اگر  مرحوم کے  بالغ ورثاء  مرحوم کےپوتوں کو اپنی رضامندی سے کچھ دے دیں تو یہ ان کی طرف سے تبرع واحسان ہوگا اور ثواب کا باعث ہوگا۔

صحیح البخاری میں ہے:

"ولد الأبناء بمنزلة الولد، إذا لم يكن دونهم ولد ذكر، ذكرهم كذكرهم، وأنثاهم كأنثاهم، يرثون كما يرثون، ويحجبون كما يحجبون، ولا يرث ولد الابن مع الابن."

(کتاب المیراث، باب میراث ابن الابن اذالم یکن ابن، ج:6، ص:2477، ط:دار ابن کثیر دمشق)

تکملۃ فتح الملھم میں ہے:

"وقد ذکر الإمام أبوبکر جصاص الرازي رحمه اللّٰه في أحکام القرآن، والعلامة العیني في عمدة القاري: الإجماع علی أن الحفید لایرث مع الابن."

(ج:2، ص:18، ط:دار القلم دمشق)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144404101942

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں