بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

حاملہ عورت کو طلاق دینا


سوال

کیا حاملہ عورت کو طلاق دینے سے طلاق واقع ہوجاتی ہے؟

جواب

بلاوجہ طلاق دینا شریعت میں انتہائی ناپسندیدہ امر ہے، اس لیے بجائے طلا ق کے حتی الامکان نباہ کی کوشش کرنی چاہیے، تاہم اگر طلاق دینا ناگزیر ہو تو حاملہ ہونے کی حالت میں بھی طلاق دی جاسکتی ہے اور اس حالت میں بھی طلاق واقع ہوجائے گی۔اگر طلاق دے دی گئی تو عورت کی عدت وضع حمل سے مکمل ہوگی یعنی بچے کی پیدائش پر ختم ہوجائے گی۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"(أما) ‌الطلاق ‌السني في العدد والوقت فنوعان حسن وأحسن فالأحسن أن يطلق امرأته واحدة رجعية في طهر لم يجامعها فيه ثم يتركها حتى تنقضي عدتها أو كانت حاملا قد استبان حملها والحسن أن يطلقها واحدة في طهر لم يجامعها فيه ثم في طهر آخر أخرى ثم في طهر آخر أخرى كذا في محيط السرخسي."

(كتاب الطلاق، الباب الأول في تفسير الطلاق وركنه وشرطه وحكمه و وصفه وتقسيمه، الطلاق السني، ج:1، ص:348، ط: رشيديه)

فتاوی شامی میں ہے:

" (و) في حق (الحامل) مطلقا ولو أمة، أو كتابية، أو من زنا بأن تزوج حبلى من زنا ودخل بها ثم مات، أو طلقها تعتد بالوضع جواهر الفتاوى (وضع) جميع (حملها)."

(كتاب الطلاق، باب العدة، مطلب في عدة الموت، ج:3، ص:511، ط:سعيد)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144404101757

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں