بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بریلوی مسلک سے تعلق رکھنے والے امام کے پیچھے نماز پڑھنے کا حکم


سوال

فہد دیوبندی مسلک سے تعلق رکھتا ہے اورایک ایسے گاؤں میں رہتا ہے، جہاں آس پاس کی ساری مساجد بریلویوں کی ہیں، تو کیا فہد کے لیےبریلویوں کی مساجد میں باجماعت نماز پڑھنا افضل ہے یا گھر میں اکیلے پڑھنا؟ یا جماعت کے بغیر مسجد میں پڑھناافضل ہے؟

جواب

اگر کوئی شخص بدعتی ہو، لیکن اس کے عقائد شرکیہ نہ ہوں تو اس کے پیچھے نماز پڑھنا مکروہ تحریمی ہے یعنی کراہت تحریمی کے ساتھ نماز ادا ہوجاتی ہے، البتہ بہتر یہ ہے کہ کسی صحیح العقیدہ اور متبعِ سنت امام کے پیچھے نماز پڑھی جائے، لیکن اگر ایسا امام میسر نہ ہو  تواسی بدعتی امام کے پیچھے نماز پڑھنا، گھر میں یا مسجد میں اکیلے نماز پڑھنے سے افضل ہے، لیکن اگرامام کے عقائد شرکیہ ہوں تو ایسے امام کے پیچھے نماز پڑھنا ہی درست نہیں،شرکیہ عقائد والے امام کے پیچھے نماز پڑھنے کے بجائے  اکیلے نماز پڑھ لی جائے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"قال الحصکفی: ویکرہ تنزیها إمامة مبتدع لا یکفر بها، وإن کفر بها فلا یصح الاقتداء به أصلا․․․ وقال: صلی خلف فاسق أو مبتدع، نال فضل الجماعة، قال ابن عابدین: قوله: ”نال فضل الجماعة“ أفاد أن الصلاة خلفهما أولی من الانفراد."

(كتاب الصلاة، باب الإمامة، ج:1، ص:562، ط:سعيد)

وفیہ ایضاً:

"فتحصل ‌أن ‌الاقتداء ‌بالمخالف المراعى في الفرائض أفضل من الانفراد إذ لم يجد غيره، وإلا فالاقتداء بالموافق أفضل."

(كتاب الصلاة، باب الإمامة، ج:1، ص:563، ط:سعيد)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144403100897

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں