بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ظہر کی نماز میں جہرًا قراءت کا حکم


سوال

اگر امام ظہر   کی نماز میں بلند آواز سے قراءت کرے تو حکم کیا ہے?

جواب

بصورتِ مسئولہ میں اگر امام نے ظہر کی  نماز میں اتنی قراءت بلند آواز میں کرلی  جس مقدار سے نماز صحیح ہوجاتی ہے (یعنی تین مختصر آیتوں یا ایک لمبی آیت کے بقدر، جس کی کم از کم مقدار تیس حروف کے برابر ہے) تو اس صورت میں سجدہ سہو ہ کرنا لازم ہوگیا تھا، سجدہ سہو نہ کرنے کی صورت میں وقت کے اندر اندر اس نماز کا اعادہ کرنا واجب تھا، اگرنماز کے وقت کے اندر اعادہ نہیں کیا تھا تو اب اعادہ لازم تو نہیں ہے، البتہ اعادہ کرلینا بہتر ہے۔اور اگر سجدہ سہو کرلیا تھا یا مذکورہ مقدار سے کم بلند  آواز میں قراء ت کی تو نماز ادا ہوگئی اور  آخری صورت (مذکورہ مقدار سے کم تلاوت کرنے کی صورت) میں سجدہ سہو  بھی لازم نہیں ہوا۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(وَالْجَهْرِ فِيمَا يُخَافِتُ فِيهِ) لِلْإِمَامِ (وَعَكْسُهُ) لِكُلِّ مُصَلٍّ فِي الْأَصَحِّ، وَالْأَصَحُّ تَقْدِيرُهُ (بِقَدْرِ مَا تَجُوزُ بِهِ الصَّلَاةُ فِي الْفَصْلَيْنِ". (ردالمحتار علی الدرالمختار، ج:2، ص:81،ط:ایچ ایم سعيد)

مراقی الفلاح میں ہے:

"و اختلف في قدر الموجب للسهو، و الأصح أنه قدر ما تجوز به الصلاة في الفصلين؛ لأن اليسير من الجهر و الإخفاء لا يمكن الاحتراز عنه". (مراقي الفلاح شرح نور الإیضاح، ج:2، ص:251، ط:قديمى کتب خانه)  فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144110201121

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں