بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ظہر کی سنتوں کی قضا کا حکم


سوال

ظہر کی سنتوں کی قضا کا کیا حکم ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں ظہر کی سنتوں کی قضا نہیں،  تاہم اگر کسی شخص سے ظہر سے پہلے کی چار سنتیں رہ جائیں، تو اس شخص کےلیے ظہر کی فرض اور دوسنتوں کے بعد  ظہر کا وقت ختم ہونے سے پہلےپہلے تک وہ سنتیں پڑھنابہتر ہے۔

در مختار  میں ہے:

"(ولا يقضيها إلا بطريق التبعية ل) قضاء (فرضها قبل الزوال لابعده في الأصح) لورود الخبر بقضائها في الوقت المهمل، بخلاف القياس فغيره عليه لا يقاس (بخلاف سنة الظهر) وكذا الجمعة (فإنه) إن خاف فوت ركعة (يتركها) ويقتدي (ثم يأتي بها) على أنها سنة (في وقته) أي الظهر.

وفی الرد:قوله ولا يقضيها إلا بطريق التبعية ... إلخ أي لا يقضي سنة الفجر إلا إذا فاتت مع الفجر فيقضيها تبعا لقضائه لو قبل الزوال؛ وما إذا فاتت وحدها فلا تقضى قبل طلوع الشمس بالإجماع، لكراهة النفل بعد الصبح ... (قوله بخلاف القياس) متعلق بورود أو بقضائها فافهم، وذلك لأن القضاء مختص بالواجب لأنه كما سيذكره في الباب الآتي فعل الواجب بعد وقته فلا يقضي غيره إلا بسمعي، وهو قد دل على قضاء سنة الفجر فقلنا به، وكذا ما روي عن عائشة في سنة الظهر كما يأتي، ولذا نقول: لا تقضى سنة الظهر بعد الوقت فيبقى ما وراء ذلك على العدم كما في الفتح."

(کتاب الصلاة، باب إدراك الفريضة، ج:2، ص:57،58، ط: سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144401100921

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں