بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ظہر کی سنتوں کا حکم


سوال

کیا ظہر کی نماز کے اکیلے  چار فرض پڑھے جاسکتے ہیں؟ یا پوری نماز پڑھنا ضروری ہے؟

جواب

سنتِ مؤکدہ (ظہر کے ہوں یا کسی اور وقت  کی نماز کے) کا اہتمام کرناواجب کے قریب ہے،بلاکسی عذر کے سنتِ مؤکدہ کاترک جائز نہیں ہے، جوشخص بلاکسی عذر کے سنتِ مؤکدہ ترک کرتاہے وہ گناہ گار اور لائقِ ملامت ہے۔البتہ اگر کوئی عذر ہو مثلاً وقت تنگ ہے اور صرف فرض نماز ادا کی جاسکتی ہویاکوئی ضرورت  تو اس وقت سنتوں کو چھوڑ سکتاہے۔[کفایت المفتی 3/319، دارالاشاعت]

البحرالرائق میں ہے:

سنة مؤكدة قوية قريبة من الواجب حتى أطلق بعضهم عليه الوجوب، ولهذا قال محمد: لو اجتمع أهل بلد على تركه قاتلناهم عليه، وعند أبي يوسف يحبسون ويضربون وهو يدل على تأكده لا على وجوبه''۔[3/6]

فتاویٰ شامی میں ہے:

ولهذا كانت السنة المؤكدةقريبة من الواجب في لحوق الإثم كما في البحر ويستوجب تاركها التضليل واللوم كما في التحرير أي على سبيل الإصرار بلا عذر''۔[2/12]

 لہذا  ظہر کی پوری نماز پڑھنا ضروری ہے، صرف چار فرض پر اکتفاء درست نہیں۔

[1/477دارالفکر]

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144112201621

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں