بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

زور زبردستی کفالت لینے سے کفیل بننے کا حکم


سوال

ایک بندہ جبراً،زور زبردستی اور نا چاہتے ہوئے اپنے بھائی کے ذمے قرض کی رقم 650,000 ہزار روپے کا ضامن بنا دیا جائے اور اس کے منہ سے قرض دینے والا صرف یہ سننا چاہتا ہو کہ’’میں ضامن ہوں‘‘ ، کیا اس صورت میں وہ ضامن ہو جاتا ہے؟حالاں کہ ضامن بناتےوقت نا تو قرض واپس کرنے کی مدت بتائی اور نہ ہی قرض کی رقم بتائي کہ کتنا قرض دے رہا ہے؟ پھر جب قرض کی ادائیگی کا وقت آئے تو پیسے قرض لینے والے اورضامن دونوں کے پاس نہ ہوں تو قرض دینے والا ضامن کے گھر قرآن پاک لے جائے کہ میرے پیسے واپس کرو،کیوں کہ تم ضامن تھے، ایسی صورت میں بندہ کیا کرے؟ ایک طرف قرآن ہے اور دوسری طرف پیسے ادا کرنے کی طاقت نہیں،کیا بندہ پر رقم ادا کرنا فرض ہو جائے گا؟ کیا نبی پاک کے زمانے میں قرآن مجید کسی کے گھر کسی معاملہ پر لے جایا جاتا تھا یا صرف آج کل ہم نے اسے رواج دے دیا ہے؟

جواب

واضح رہے کہ اگر ایک بندہ دوسرے مقروض شخص کی طرف سے اس کا قرض ادا کرنے کی ضمانت لے لے،تو شریعت کی اصطلاح میں اس معاملہ کوعقدِ کفالت کہاجاتا ہے،جس کا حکم یہ ہے کہ قرض خواہ کو جس طرح پہلے اصل مقروض سے مطالبہ کا حق حاصل تھا،ایسے ہی ضمانت لینے والے شخص سے بھی اب مطالبہ کا حق حاصل ہوجائےگا،تاہم اگر ضمانت لینے والے شخص نے مقروض کی اجازت اور حکم سے ضمانت لی ہوتو اس صورت میں وہ قرض ادا کرنے کے بعد اس سے اتنی رقم کا مطالبہ بھی کرسکتا ہے،بصورتِ دیگر یعنی اگر مقروض کی اجازت اور حکم کے بغیراس کی طرف سے ضمانت لی ہو،تو اس صورت میں ضامن شخص، اصل مقروض سے مطالبہ کا حق نہیں رکھتا،نیز  یہ بھی واضح رہے کہ قرض دینے والاجب بھی چاہے اپنی رقم کے مطالبے کاحق رکھتا ہے۔

صورتِ مسئولہ میں اگر سائل کوضمانت نہ لینے کی صورت میں قتل کی یا کوئی عضو ضائع کرنےکی دھمکی دی گئی تھی اور دھمکی دینے والا واقعۃً اسے پورا کرنےپرقادر بھی تھاتو اس صورت میں سائل شرعاًاپنے بھائی کا ضامن نہیں بنا ہے اور نہ ہی قرض خواہ کو سائل سے پیسوں کا مطالبہ کرنے کاحق حاصل ہے،بصورتِ دیگر یعنی اگر دھمکی اس درجہ کی نہیں تھی تو سائل کا اقرار معتبر ہے اور وہ اپنے بھائی کا ضامن ہے،البتہ اگر قرض خواہ کے مطالبے کے وقت نہ اس کے پاس پیسے ہوں اور نہ ہی اصل مقروض کے پاس ہوں تو اس صورت میں قرض خواہ سے مزید کچھ وقت کی مہلت لے لینی چاہیے۔

قرض خواہ کو بھی چاہیے کہ اگرمقروض اور ضامن کے پاس واقعی کوئی رقم دینے کے لیے نہیں ہےتو ان سے مطالبے میں سختی نہ کرے،بلکہ ان کواتنے وقت کی مہلت دے دے،جس میں وہ اس کی رقم کا بندبست کرنے پر قادر ہوں۔

باقی ہر معاملے میں قرآن پاک کو بیچ میں لے کرآناقرآن کریم  کے ادب کے خلاف ہے،نبی کریم ﷺ کے زمانے میں یا صحابہ کرام کے زمانے میں ہر معاملے میں قرآن کو بیچ میں لے کرآناثابت نہیں ہے،اس سے احتراز کیاجائے۔

"القرآن الکریم"میں ہے:

"وَ اِنْ كَانَ ذُوْ عُسْرَةٍ فَنَظِرَةٌ اِلٰى مَیْسَرَةٍ وَ اَنْ تَصَدَّقُوْا خَیْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ."

ترجمہ:"اور اگر تنگ دست ہو تو مہلت دینے کا حکم ہے آسودگی تک اور یہ (بات) کہ معاف ہی کردو اور زیادہ بہتر ہے تمہارے لیے اگر تم کو (اس کے ثواب کی) خبر ہو۔"

(سورۃ البقرۃ،الآية:٢٨٠)

"شرح النووي على صحيح مسلم"میں ہے:

"(كنت أداين الناس فآمر فتياني أن ينظروا المعسر ويتجوزوا عن الموسر) قال الله تجوزوا عنه ... وفي هذه الأحاديث فضل إنظار المعسر والوضع عنه إما كل الدين وإما بعضه من كثير أو قليل وفضل المسامحة في الاقتضاء وفي الاستيفاء سواء استوفي من موسر أو معسر وفضل الوضع من الدين وأنه لا يحتقر شيء من أفعال الخير فلعله سبب السعادة والرحمة."

(ص:٢٢٤،ج:١٠،کتاب البیوع،باب فضل أنظار المعسر،ط:دار إحياء التراث)

"رد المحتار على الدر المختار"میں ہے:

"(ولو كفل بأمره) أي بأمر المطلوب بشرط قوله عني أو علي أنه علي وهو غير صبي وعبد محجورين ابن ملك رجع عليه (بما أدى)...(وإن بغيره لا يرجع) لتبرعه.

(قوله: وإن بغيره) أي وإن كفل بغير أمره لا يرجع."

(ص:٣١٤،ج:٥،کتاب الکفالة،ط:ايج ايم سعيد)

"بدائع الصنائع"میں ہے:

"والأجل لا يلزم في القرض سواء كان مشروطا في العقد أو متأخرا عنه بخلاف سائر الديون، والفرق من وجهين: أحدهما أن القرض تبرع.

ألا يرى أنه لا يقابله عوض للحال وكذا لا يملكه من لا يملك التبرع؛ فلو لزم فيه الأجل؛ لم يبق تبرعا؛ فيتغير المشروط، بخلاف الديون، والثاني أن القرض يسلك به مسلك العارية، والأجل لا يلزم في العواري."

(ص:٣٩٦،ج:٧،کتاب القرض،فصل فی شرائط رکن القرض،ط:دار الكتب العلمية)

وفيه ايضا:

"(ومنها) الرضا، حتى لو ‌أكره على قبول الحوالة لا يصح."

(ص:١٦،ج:٦،كتاب الحوالة،شرائط الحوالة،ط:دار الكتب العلمية)

"العقود الدرية في تنقيح فتاوي الحامدية"میں ہے:

"(سئل) في ذي شوكة أحضر زيدا وضربه ضربا شديدا وهدده بالقتل على أن يقر بأنه كفيل ابن أخيه عمرو بمال قدره كذا بذمته لذي الشوكة وعلم زيد بدلالة الحال أنه إن لم يقر بذلك له يوقع به القتل وهو قادر على الإيقاع فأقر زيد بذلك خوفا من ذلك فهل إذا ثبت ما ذكر لم يصح الإقرار؟

(الجواب) : نعم لأن المواضع التي تصح مع الإكراه عشرون كما نقله العلائي في شرح التنوير من الطلاق وهذه ليست منها وقال في كتاب الإكراه: فلو ‌أكره بقتل أو ضرب شديد حتى باع أو اشترى أو أقر أو آجر فسخ أو مضى اهـ وقد أفتى بعدم صحة ‌الكفالة كرها العلامة الشيخ عبد الرحيم اللطفي كما هو مسطور في فتاويه من كتاب الإكراه فراجعها، غاية ما هنا أن ما أفتى به في إنشاء ‌الكفالة وفي مسألتنا إقرار بالكفالة."

(ص:١٤٣،ج:٢،کتاب الإكراه،ط:دار المعرفة)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144503101228

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں