بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ضرورت کے دو لاکھ روپے پر قربانی کاحکم


سوال

میرے پاس ضرورت کے صرف دو لاکھ روپے ہیں ،کیا میرے اوپر قربانی واجب ہوگی؟

جواب

واضح رہے کہ قربانی واجب ہونے کا نصاب وہی ہے جو صدقہ فطر کے واجب ہونے کا نصاب ہے، یعنی جس عاقل، بالغ، مقیم، مسلمان  مرد یا عورت کی ملکیت میں قربانی کے ایام میں قرض کی رقم منہا کرنے کے بعد ساڑھے سات تولہ سونا، یا ساڑھے باؤن تولہ چاندی، یا اس کی قیمت کے برابر رقم ہو،  یا تجارت کا سامان، یا ضرورت  اور استعمال سےزائد اتنا سامان  موجود ہو جس کی قیمت ساڑھے باؤن تولہ چاندی کے برابر ہو،یاان میں سےبعض یاسب کامجموعہ ساڑھےباؤن تولہ چاندی کی قیمت کےبرابرہوتو ایسےمرد پرقربانی واجب ہے،لہٰذا صورتِ مسئولہ میں اگرواقعتہً سائل کےپاس دولاکھ روپےہیں،(جوفی زمانہ ساڑھےباؤن تولہ چاندی کی قیمت سےزیادہ ہیں)اور قربانی کے ایام میں بھی یہ  رقم موجود رہتی ہے،تو سائل پر قربانی واجب ہے۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

"وشرائطها: الإسلام والإقامة واليسار الذي يتعلق به) وجوب (صدقة الفطر).

(قوله: واليسار إلخ) بأن ملك مائتي درهم أو عرضاً يساويها غير مسكنه وثياب اللبس أو متاع يحتاجه إلى أن يذبح الأضحية، ولو له عقار يستغله فقيل: تلزم لو قيمته نصاباً، وقيل: لو يدخل منه قوت سنة تلزم، وقيل: قوت شهر، فمتى فضل نصاب تلزمه. ولو العقار وقفاً، فإن وجب له في أيامها نصاب."

(‌‌كتاب الأضحية، ج:6، ص:312، ط: سعيد)

فتاویٰ ہندیہ میں ہے:

"وهي واجبة على الحر المسلم المالك لمقدار النصاب فاضلاً عن حوائجه الأصلية، كذا في الإختيار شرح المختار، ولايعتبر فيه وصف النماء، ويتعلق بهذا النصاب وجوب الأضحية، ووجوب نفقة الأقارب، هكذا في فتاوى قاضي خان."

 (كتاب الزكاة، الباب الثامن في صدقة الفطر، ج:1، ص:191، ط: دار الفكر بيروت)

فتاوٰی شامی میں ہے:

"ما في المعراج في فصل زكاة العروض أن الزكاة تجب في النقد كيفما أمسكه للنماء أو للنفقة، وكذا في البدائع في بحث النماء التقديري."

(كتاب الزكاة، مطلب في زكاة ثمن المبيع وفاء، 2/ 262، ط: سعيد)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144411101899

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں