بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

زوم پر نکاح کی ایک صورت کا حکم


سوال

میں اپنے بیٹے کے ساتھ آسٹریلیا میں رہتا ہوں، میں نے اپنے بیٹے کا نکاح پاکستان میں بذریعہZOOM آن لائن  کیا ہے، نکاح کی تقریب کراچی میں منعقد ہوئی، نکاح میں لڑکے کی طرف سے ایک وکیل دو گواہ کراچی میں موجود تھے، اس تقریب میں لڑکی خود، اس کے والد بحیثیتِ وکیل اور دو گواہ بمع قاضی و دیگر مہمان شامل تھے۔ آسٹریلیا میں لڑکا اور اس کی فیملی بمع دو گواہ اور دیگر مہمان شامل تھے اور ہم اس تقریب میں آن لائن شامل تھے، قاضی نے لڑکی کے والد اور ان کے گواہوں اور لڑکے کے وکیل اور ان کے گواہوں کی موجودگی میں لڑکے سے ایجاب و قبول کروایا اور سب سے پوچھا کہ سب نے سنا اور دیکھا؟ اس کے بعد نکاح نامہ دولہا کے لیے آسٹریلیا بھیج کر دستخط کروائے اور یو سی میں اندراج کروا لیا گیا۔

1.  شرعی طور پر یہ نکاح منعقد ہو گیا؟

2. کیا لڑکی کے والدین اس نکاح سے انکار کر کے اس کا نکاح کسی دوسرے سے کر سکتے ہیں؟

وضاحت: قاضی لڑکی کی مجلس میں موجود تھا اور وہاں دو گواہ موجود تھے، لڑکا بیرون ملک سے ویڈیو کال پر موجود تھا اور ایجاب و قبول لڑکے نے کیا، لڑکے کی طرف سے نکاح خواں کی مجلس میں ایک وکیل مقرر تھے،  لیکن انہوں نے صرف  لڑکے کی تصدیق  کی، ایجاب و قبول براہِ راست لڑکے نے کیا، نکاح خوں نے اس نکاح پر سب کو گواہ بنایا۔

وکیل نے یہ الفاظ ادا کیے تھے:  آپ سب لوگ یہ سن لو۔

جواب

واضح رہے کہ نکاح صحیح ہونے کے لیے  ایجاب و قبول کی مجلس  کا ایک ہونا اور اس میں  عاقدین کا موجود ہونا ضروری ہے، یعنی یا تو لڑکا اور لڑکی خود موجود ہوں، یا ان کے وکیل یا ایک طرف سے لڑکا یا لڑکی خود موجود ہو اور دوسرے کا وکیل اسی مجلس میں موجود ہو اور وہ وکیل ایجاب قبول کرے،  اگر جانبین  (لڑکا، لڑکی) میں سے کوئی ایک مجلسِ نکاح میں موجود نہ ہو تو اس صورت میں اپنا وکیل مقرر کرے ، پھر یہ وکیل اپنے مؤکل کی طرف سے اس کا نام مع ولدیت لے کر مجلسِ  نکاح میں ایجاب وقبول کرے، تو نکاح منعقد ہوجائے گا۔

صورتِ مسئولہ میں چوں کہ ایجاب و قبول وکیل نے نہیں کیا ، بلکہ دولہا نے کیا ہے  اور وہ خود مجلسِ نکاح میں موجود نہ تھا؛ اس لیے یہ نکاح درست نہیں ہوا،  وکیل کے صرف تصدیق کا شرعا اعتبار نہیں، اب اگر لڑکی کے والدین اپنی بچی کا نکاح کسی دوسری جگہ کرنا چاہتے ہیں تو کر سکتے ہیں۔

فتاوی شامی میں ہے:

"ومن شرائط الإیجاب والقبول: اتحاد المجلس لوحاضرین...

و في الرد : (قوله: اتحاد المجلس) قال في البحر: فلو اختلف المجلس لم ینعقد، فلو أوجب أحدهما فقام الآخر أو اشتغل بعمل آخر، بطل الإیجاب؛ لأن شرط الارتباط اتحاد الزمان، فجعل المجلس جامعاً تیسیراً".

(کتاب النکاح: ۳/ ۱۴، ط: سیعد)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"أن يكون الإيجاب والقبول في مجلس واحد، حتى لو اختلف المجلس بأن كانا حاضرين فأوجب أحدهما فقام الآخر عن المجلس قبل القبول أو اشتغل بعمل يوجب اختلاف المجلس لا ينعقد، وكذا إذا كان أحدهما غائباً لم ينعقد، حتى لو قالت امرأة بحضرة شاهدين: زوجت نفسي من فلان، وهو غائب فبلغه الخبر، فقال: قبلت، أو قال رجل بحضرة شاهدين: تزوجت فلانةً وهي غائبة، فبلغها الخبر، فقالت: زوجت نفسي منه، لم يجز وإن كان القبول بحضرة ذينك الشاهدين، وهذا قول أبي حنيفة ومحمد رحمهما الله تعالى. ولو أرسل إليها رسولاً أو كتب إليها بذلك كتاباً، فقبلت بحضرة شاهدين سمعا كلام الرسول وقراءة الكتاب جاز؛ لاتحاد المجلس من حيث المعنى، وإن لم يسمعا كلام الرسول وقراءة الكتاب لا يجوز عندهما".

(كتاب النكاح، الباب الأول في تفسير النكاح شرعا وصفته وركنه وشرطه وحكمه: ۱/ ۲۶۹، ط: دار الفكر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144305100329

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں