بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

زوم لنک کے ذریعے نکاح کے منعقد ہونے کا حکم


سوال

کیا زوم لنک (zoom)کے ذریعے نکاح منعقد ہوجاتا ہے، اس کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ کیا یہ نادرا (Nadra)کے  لیے قابلِ  قبول ہوگا؛ کیوں کہ نادرا سے رجسٹریشن بھی کرانی ہوگی۔ 

جواب

واضح رہے کہ شریعت  نےنکاح کے انعقاد کے لیے ایک ضابطہ رکھا ہے اور وہ یہ ہے کہ شرعًا  نکاح کے صحیح ہونے کے  لیے ایجاب و قبول کی مجلس ایک ہو اور اس میں جانبین میں سے دونوں کا بنفسِ نفیس یا ان کے وکیل کا موجود ہونا ضروری ہے نیز مجلس نکاح میں دو گواہوں کا موجود ہونا اور دونوں کا مجلسِ نکاح میں ایجاب و قبول کے الفاظ سننا بھی شرط ہے۔  اور اگر جانبین میں کوئی مجلسِ  نکاح میں موجود نہ ہو تو اپنا وکیل مقرر کرے، پھر یہ وکیل اپنے مؤکل کی طرف سے اس کا نام مع ولدیت لے  کر مجلسِ نکاح میں  ایجاب و قبول کرے تو نکاح منعقد  ہوجائے گا،  پھر نکاح کی مجلس میں  فریقین بنفسِ نفیس شریک ہوں تو مجلس حقیقتًا مجلس کے حکم میں ہے اور  جس مجلس میں فریقین میں سے ایک یا دونوں کی جانب سے وکیل ہو ں تو و ہ حکمًا مجلس کے حکم میں ہے ۔

موجودہ دور میں ویڈیو کالنگ   کے ذریعے  نکاح کے انعقاد کی جو  صورت اختیار کی جاتی ہے اس میں مجلس کی  شرط مفقود ہو تی  ہے؛ کیوں کہ  شرعًا نہ تو  یہ حقیقتًا مجلس کے حکم میں  ہے اور نہ ہی حکمًا؛ کیوں کہ وہ  ایک مجلس ہی نہیں ہوتی، بلکہ فریقین دو مختلف جگہوں پر ہوتے ہیں جب کہ ایجاب و قبول کے  لیے عاقدین کی مجلس ایک ہونا ضروری ہے؛  لہذا زوم لنک (zoom)  لنک  کے ذریعہ  نکاح  منعقد کرنا شرعًا درست نہیں ہے ، نیز ایسا کرنے سے نکاح منعقد ہی نہیں ہو ؛ لہٰذا نادرا میں اس کی رجسٹریشن کرانا بھی درست نہیں ہے ۔

ملحوظ رہے کہ "زوم" یا کسی بھی پروگرام کے ذریعے آن لائن ویڈیو کالنگ میں نظر آنی والی تصویر بھی شرعًا تصویر کے حکم میں ہے؛ لہٰذا آن لائن کالنگ میں جان دار کی تصویر دکھانا یا دیکھنا شرعًا جائز نہیں ہے۔

فتاو ی شامی میں ہے :

" و من شرائط الإيجاب القبول اتحاد المجلس لو حاضرين.

قال في البحر: فلو اختلف المجلس لم ينعقد فلو أوجب أحدهما فقام الآخر أو اشتغل بعمل آخر بطل الإيجاب لأن شرط الارتباط اتحاد الزمان فجعل المجلس جامعا تيسيرًا."

( کتاب النکاح جلد ۳ / ۱۴  / ط : دار الفکر )

فتاوی ہندیہ میں ہے :

" أن يكون الإيجاب والقبول في مجلس واحد حتى لو اختلف المجلس بأن كانا حاضرين فأوجب أحدهما فقام الآخر عن المجلس قبل القبول أو اشتغل بعمل يوجب اختلاف المجلس لا ينعقد وكذا إذا كان أحدهما غائبا لم ينعقد حتى لو قالت امرأة بحضرة شاهدين زوجت نفسي من فلان وهو غائب فبلغه الخبر فقال: قبلت، أو قال رجل بحضرة شاهدين: تزوجت فلانة وهي غائبة فبلغها الخبر فقالت زوجت نفسي منه لم يجز وإن كان القبول بحضرة ذينك الشاهدين وهذا قول أبي حنيفة ومحمد - رحمهما الله تعالى - ولو أرسل إليها رسولا أو كتب إليها بذلك كتابا فقبلت بحضرة شاهدين سمعا كلام الرسول وقراءة الكتاب؛ جاز لاتحاد المجلس من حيث المعنى وإن لم يسمعا كلام الرسول وقراءة الكتاب لا يجوز عندهما."

( کتاب النکاح  الباب الاول فی تفسیر النکاح شرعا وصفتہ ورکنہ و شرطہ و حکمہ  جلد ۱ / ۲۶۹ / ط : دار الفکر )

النہر الفائق میں ہے :

"و اعلم أن للإيجاب و القبول شرائط اتحاد المجلس، فلو اختلف لم ينعقد بأن أوجب أحدهما فقام الآخر قبل القبول و اشتغل بعمل آخر."

( کتاب النکاح جلد ۲ / ۱۷۸ / ط : دار الکتب العلمیۃ ) 

البحر الرائق میں ہے:

"و لم يذكر المصنف شرائط الايجاب والقبول فمنها اتحاد المجلس إذا كان الشخصان حاضرين فلو اختلف المجلس لم ينعقد، فلو أوجب أحدهما فقام الآخر أو اشتغل بعمل آخر بطل الايجاب لان شرط الارتباط اتحاد الزمان فجعل المجلس جامعا تيسيرًا."

( کتاب النکاح جلد ۳ / ۸۹   / ط : دار الکتاب الاسلامی )

بدائع الصنائع میں ہے :

"( وأما ) الذي يرجع إلى مكان العقد فهو اتحاد المجلس إذا كان العاقدان حاضرين وهو أن يكون الإيجاب والقبول في مجلس واحد حتى لو اختلف المجلس لا ينعقد النكاح ، بأن كانا حاضرين فأوجب أحدهما فقام الآخر عن المجلس قبل القبول ، أو اشتغل بعمل يوجب اختلاف المجلس ، لا ينعقد ؛ لأن انعقاده عبارة عن ارتباط أحد الشطرين بالآخر ، فكان القياس وجودهما في مكان واحد ، إلا أن اعتبار ذلك يؤدي إلى سد باب العقود ؛ فجعل المجلس جامعا للشطرين حكما مع تفرقهما حقيقة للضرورة ، والضرورة تندفع عند اتحاد المجلس ، فإذا اختلف تفرق الشطرين حقيقة وحكما فلا ينتظم الركن."

( کتاب النکاح فصل شرائط الرکن انواع منہا شرط الانعقاد جلد ۲ / ٢٣٢ / ط : دار الکتب العلمیۃ )

فقط و اللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144212201968

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں