بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ظلم سے بچنے کے لیے جھوٹی قسم کھانے کا حکم


سوال

میں سعودی عرب میں ملازم ہوں ،میں جس  کمپنی میں ملازم ہوں وہ  اپنی گاڑی کو ہزار ریال کےعوض کرایہ پر دیتی تھی،میں نے ایک گاہک بنایااور وہ مجھے سولہ سو روپے کرایہ دیتا تھا،میں تیرہ سو کمپنی کو دیتا تھا،اورتین سو خود لیتا تھا، کمپنی کا بھی فائدہ ہوا اور مجھے بھی فائدہ ہوا اور گاہک بھی خوش تھا،اس گاہک نے کمپنی سے چارلاکھ ریال کھا لیے، وہ میں نے اپنی جیب سے کمپنی کو دئیے، اب کمپنی نے مجھے نظربند کردیا ہے،اورکام سے نکال دیا ہےاورکہتی ہے كہ دس لاکھ ریال دو یا قسم کھاؤ کہ تم نے کمیشن نہیں لیا ہے،میں ان کو کہتا ہوں کہ میں نے کمیشن لیا ہے مگر کمپنی سے چوری نہیں کیا ہے،یہاں سعودی میں سب لوگ کمیشن لیتے ہیں،کیا میں قسم اٹھاسکتا ہوں کہ میں نے کمیشن نہیں لیا ہے ،تاکہ ان کے ظلم سے بچ جاؤں،کمپنی کہتی ہے کہ تم قسم کھاؤکہ تم تیرہ سو لیتے تھے،سولہ سو نہیں ،اور دس لاکھ ریال مانگ رہے ہیں،اور کہتے ہیں اگر کسی نے خیرات زکوٰۃ گفٹ کمیشن دیا ہے وہ بھی ہمیں دو۔

جواب

واضح رہےکہ جھوٹی قسم کھانا کبیرہ گناہوں میں سے شدید ترین گناہ ہے، جھوٹی قسم کا مطلب یہ ہے کہ انسان اللہ رب العزت والقدرۃ کا نام استعمال کرکے اور اللہ تعالیٰ کو گواہ بناکر جھوٹ کہتاہے، لہذا صورتِ مسئولہ میں سائل کاکمپنی والوں کے ظلم سےبچنےکےلیےجھوٹی قسم کھانا جائز نہیں ہے،کوئی اور حیلہ وغیرہ  کرلیا جائے  جس سے سائل کا کام بھی ہوجاۓ اور جھوٹ بھی نہ بولنا پڑے۔

صحیح بخاری میں ہے:

"عن عبد الله بن عمرو، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: (الكبائر: الإشراك بالله، وعقوق الوالدين، وقتل النفس، ‌واليمين ‌الغموس)."

(كتاب الأيمان والنذور، باب: اليمين الغموس، ج:6، ص:2457، ط: دار ابن كثير)

فتاوی شامی میں ہے:

"وھي أي: الیمین باللہ تعالی … غموس تغمسه فی الإثم ثم فی النار، وھي کبیرة مطلقاً … إن حلف علی کاذب عمداً … کو اللہ ما فعلت کذا عالماً بفعله أو … کواللہ ما له علي ألف عالماً بخلافه وواللہ إنه بکر عالماً بأنه غیرہ … ویأثم بھا فتلزمه التوبة."

(کتاب الأیمان،ج:3، ص:705، ط: سعید)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144503100204

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں