بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1445ھ 30 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

گیارہ ماہ تک زوجین کے درمیان ازدواجی تعلق قائم نہ ہونے کا حکم


سوال

میری بیٹی کے شوہر پر کچھ قرضہ تھا،تو اس نے فیملی میرے گھر پر چھوڑ دی اور کہا کہ میں اخراجات کا متحمل نہیں ہوں، جب قرضہ اتر جائے گا تو واپس لے جاؤں گا، اب گیارہ ماہ سے بیٹی میرے گھر ہے،شوہر ان سے ملنے آتا ہے، بچے کو خرچہ بھی دیتا ہے، مگر ملاپ وغیرہ نہیں ہوتا، پوچھنا یہ ہے کہ ازدواجی تعلق قائم نہ ہونے کی وجہ سے نکاح پر اثر  تو نہیں پڑے گا؟

جواب

اگر شوہر نے چار مہینے یا اس سے زیادہ عرصہ بیوی سے ازدواجی تعلق قائم نہ کرنے کی قسم نہ کھائی ہو تو چاہے جتنا بھی عرصہ ازدواجی تعلق قائم نہ ہو نکاح نہیں ٹوٹتا ہے، لیکن بلا عذر لمبے عرصے تک بیوی سے ازدواجی تعلق قائم نہ کرنا بیوی کی حق تلفی اور گناہ ہے، البتہ میاں بیوی باہمی رضامندی سے جتنا عرصہ تعلق قائم نہ کریں شرعًا اس پر پابندی نہیں، لیکن چار ماہ سے زیادہ کی مدت تک بیوی سے الگ رہنا مناسب نہیں ہے۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 422):

"(هو) لغةً: اليمين. وشرعاً: (الحلف على ترك قربانها) مدته ولو ذمياً، (والمولي هو الذي لا يمكنه قربان امرأته إلا بشيء) مشق (يلزمه) إلا لمانع كفر... (وحكمه: وقوع طلقة بائنة إن برّ) ولم يطأ (و) لزم (الكفارة، أو الجزاء) المعلق (إن حنث) بالقربان. (و) المدة (أقلها للحرة أربعة أشهر، وللأمة شهران) ولا حد لأكثرها ... وألفاظه صريح وكناية، (ف) من الصريح (لو قال: والله) وكل ما ينعقد به اليمين (لا أقربك) لغير حائض، ذكره سعدي ؛ لعدم إضافة المنع حينئذ إلى اليمين، (أو) والله (لا أقربك) لا أجامعك لا أطؤك لاأغتسل منك من جنابة (أربعة أشهر)."

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144303100178

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں