بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

زوجین کا ایک دوسرے کو وفات کے وقت غسل دینے کا حکم


سوال

کیا میاں بیوی ایک دوسرے کی وفات پر ایک دوسرےکو غسل دے سکتے ہیں؟ کچھ اسلامی ویڈیوز میں جائز بتایا جا رہا ہے، اور دلیل حضرت علی رضی اللہ عنہ کا اپنی زوجہ محترمہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا   کو غسل دینا بتایا جا رہا ہے!

جواب

بیوی  کے انتقال   کے بعد  شوہر بیوی کو  صرف دیکھ سکتا ہے۔ ہاتھ لگانے اور غسل وکفن کی اجازت نہیں۔

شوہر  کے  انتقال  کی صورت میں دورانِ عدت مرحوم شوہر کا حق اس کی بیوہ پر برقرار رہتا ہے، اور نکاح بھی عدت مکمل ہونے تک قائم رہتا ہے، لہٰذا اگر مرحوم شوہر کو غسل دینے والا کوئی مرد نہ ہو تو بیوہ اسے غسل دے سکتی ہے۔

نیز حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے جسد  پاکی کو امِ ایمن رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے غسل دیا تھا، اور حضرت علی رضی اللہ نے  ان کے  ساتھ  غسل کے انتظام وانصرام مثلاً سامان ، پانی وغیرہ میں تعاون کیا تھا؛ لہٰذا  اس کو جائز بتانا فقہ حنفی کی رُو سے درست نہیں۔

یہ بھی ملحوظ رہے کہ جان دار کی تصویر اور ویڈیو بنانا شرعًا جائز نہیں ہے، لہٰذا ایسی ویڈیو کو اسلامی ویڈیو کہنا درست نہیں ہے۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 198):

"قال في شرح المجمع لمصنفه: فاطمة -رضي الله تعالى عنها- غسلتها أم أيمن حاضنته صلى الله عليه وسلم ورضي عنها، فتحمل رواية الغسل لعلي -رضي الله تعالى عنه- على معنى التهيئة والقيام التام بأسبابه، ولئن ثبتت الرواية فهو مختص به، ألا ترى «أن ابن مسعود -رضي الله عنه- لما اعترض عليه بذلك أجابه بقوله: أما علمت أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: إن فاطمة زوجتك في الدنيا والآخرة»، فادعاؤه الخصوصية دليل على أن المذهب عندهم عدم الجواز اهـ. مطلب في حديث: «كل سبب ونسب منقطع إلا سببي ونسبي».

قلت: ويدل على الخصوصية أيضاً الحديث الذي ذكره الشارح وفسر بعضهم السبب فيه بالإسلام والتقوى، والنسب بالانتساب ولو بالمصاهرة والرضاع، ويظهر لي أن الأولى كون المراد بالسبب القرابة السببية كالزوجية والمصاهرة وبالنسب القرابة النسبية؛ لأن سببية الإسلام والتقوى لاتنقطع عن أحد، فبقيت الخصوصية في سببه ونسبه صلى الله عليه وسلم ولهذا قال عمر -رضي الله تعالى عنه-: فتزوجت أم كلثوم بنت علي لذلك".

 تنویر الابصار میں ہے:

"(وهي لاتمنع من ذلك)."

(باب صلوة الجنازة، ٢/ ١٩٨، ط: سعيد)

شامی میں ہے:

"«ویمنع زوجها من غسلها ومسها لا من النظر إلیها علی الأصح، وهی لا تمنع من ذلک أی من تغسیل زوجها دخل بها أو لا»."

(شامی، کتاب الجنائز ، ۲/۱۹۸ ، ط: سعید) 

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144207201140

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں