بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

زوجین کا باہمی رضامندی سے مہرمعجل کو مہر مؤجل کرنے کا حکم


سوال

اگر زوجین کےمہر کی تعیین کے وقت وکیل و گواہ کی موجودگی میں مہرِمعجل طے پایا، اور بعد میں زوجین اپنی رضامندی سے اس مہر ِمعجل کو مؤجل کرنا چاہیں تو کر سکتے ہیں یا نہیں ؟ 

جواب

صورتِ مسئولہ میں شوہر بیوی کی رضامندی سے مہرِمعجل کو وقت بڑھا کر مہر مؤجل کرسکتا ہے، کیوں کہ مہر بیوی کا حق ہے، جب شوہر کے مطالبے اور جبر و اکراہ کے بغیر  بیوی اپنی خوشی اور رضامندی سے  حق مہر معاف کرے تو شرعاً اس کو معاف کرنے  کاحق حاصل ہوتا ہے، تو  اس حق مہر کی وصول یابی کواپنی رضامندی سے کسی وقتِ مقررہ تک مؤخر کرنا چاہے تو  بدرجہ اولی کرسکتی ہے۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"لا خلاف لأحد أن تأجيل المهر إلى غاية معلومة نحو شهر أو سنة صحيح، وإن كان لا إلى غاية معلومة فقد اختلف المشايخ فيه قال بعضهم يصح وهو الصحيح وهذا؛ لأن الغاية معلومة في نفسها وهو الطلاق أو الموت ألا يرى أن تأجيل البعض صحيح، وإن لم ينصا على غاية معلومة، كذا في المحيط. وبالطلاق الرجعي يتعجل المؤجل ولو راجعها لا يتأجل، كذا أفتى الإمام الأستاذ، كذا في الخلاصة."

(كتاب النكاح،الباب السابع في المهر،ج:، ص:318، ط:دارالفكر)

وفيه أيضاً:

"وإن حطت عن مهرها صح الحط، كذا في الهداية. ولا بد في صحة حطها من الرضا حتى لو كانت مكرهة لم يصح."

(كتاب النكاح،الباب السابع في المهر،ج:، ص:313، ط:دارالفكر)

شرح معانی الاثار میں ہے:

"كثير بن عبد الله المزني عن أبيه عن جده أن رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: المسلمون ‌عند ‌شروطهم إلا شرطا أحل حراما، أو حرم حلالا."

(كتاب الهبة، باب العمرى،رقم الحديث:5849، ج:4، ص:90،ط:عالم الكتب)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144311100982

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں