آج کل اکثر لوگ ظہراورمغرب کی سنتوں کے بعد دو رکعت بیٹھ کر پڑھتے ہیں،اس کی کیا حیثیت ہے؟
صورتِ مسئولہ میں نوافل کو کھڑے ہوکر پڑھنا اور بیٹھ کر پڑھنا دونوں درست ہے، لیکن بیٹھ کر نفل پڑھنے کی صورت میں، کھڑے ہوکر پڑھنے کے مقابلے میں آدھا ثواب ملتا ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے وتر کے بعد دو رکعت نفل نماز بیٹھ کر ادا کی ہے، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بیٹھ کر پڑھنے میں پورا ثواب ملتا تھا اور دوسروں کو آدھا ثواب ملتا ہے۔
لہٰذا ظہر اور مغرب کی سنتوں کے بعد بیٹھ کر ( نفل ) پڑھنا جائز ہے البتہ بیٹھ کر پڑھنے کی صورت میں کھڑے ہوکر پڑھنے کے مقابلے میں آدھا ثواب ملے گا۔
مشکاۃ المصابیح میں ہے:
"وعن عمران بن حصين: أنه سأل النبي صلى الله عليه وسلم عن صلاة الرجل قاعداً؟ قال: «إن صلى قائماً فهو أفضل، ومن صلى قاعداً فله نصف أجر القائم، ومن صلى نائماً فله نصف أجر القاعد» . رواه البخاري".
عن عبد الله بن عمرو قال: حدثت أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «صلاة الرجل قاعداً نصف الصلاة» قال: فأتيته فوجدته يصلي جالساً فوضعت يدي على رأسه فقال: «مالك يا عبد الله بن عمرو؟» قلت: حدثت يا رسول الله أنك قلت: «صلاة الرجل قاعداً على نصف الصلاة» وأنت تصلي قاعداً قال: «أجل ولكني لست كأحد منكم» . رواه مسلم".
(كتاب الصلاة،باب القصد في العمل،الفصل الأول،الفصل الثالث،ج:1،ص:،393،392،ط:المكتب الإسلامي)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144404100830
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن