بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

5 جمادى الاخرى 1446ھ 08 دسمبر 2024 ء

دارالافتاء

 

ظہر سے پہلے کی سنتیں بعد میں ادا کرنے سے نفل نہیں بنیں گی


سوال

ظہرکی سنن قبلیہ اگر بعد میں پڑھی جائیں تو ان کی کیا حیثیت ہوگی؟ نفل یا سنت؟ دوسری رکعت میں درود پڑھیں گے یا نہیں ؟ اگر پڑھ لیا تو سجدہ سہو واجب ہوگا یا نہیں؟

جواب

صورت مسئولہ میں ظہر سے پہلے والی چار سنتيں  اگر بعد میں پڑھی جائیں یعنی فرض کے بعد  تو وہ سنت ہی  رہیں گی، نفل نہیں بنیں گی۔

واضح رہے کہ سنتِ مؤکدہ کے پہلے قعدہ میں صرف تشہد ہی پڑھا جائے گا،  تشہد پڑھنے کے فوراً  بعد تیسری رکعت کے  لیے کھڑا ہونا واجب ہے، اگر درود شریف اور دعا یا صرف درود شریف پڑھنے کی وجہ سے اسی طرح درود شریف شروع کرنے کے بعد"اللهم صل علي محمد"تک اگر پڑھ لیا تو اتنی تاخیر سے بھی  سجدہ سہو کرنا لازم ہوگا لہذا صورت مسئولہ میں ظہر سے پہلے کی چار سنتوں کے قعدہ اولی میں صرف تشہد پڑھاجائے گااگر درود وغیرہ پڑھ لیا تو سجدہ سہو کرنا لازم ہوگا۔

در المختار میں ہے:

"(‌بخلاف ‌سنة ‌الظهر) وكذا الجمعة (فإنه) إن خاف فوت ركعة (يتركها) ويقتدي (ثم يأتي بها) على أنها سنة (في وقته) أي الظهر."

(كتاب الصلوة ، باب إدراك الفريضة جلد 2 ص: 58 ط: درالفكر)

فتاوی شامی میں ہے:

"(ولا يصلى على النبي  صلى الله عليه وسلم -في القعدة الأولى في الأربع قبل الظهر والجمعة وبعدها) ولو صلى ناسيا فعليه السهو، وقيل لا شمني (ولا يستفتح إذا قام إلى الثالثة منها) لأنها لتأكدها أشبهت الفريضة (وفي البواقي من ذوات الأربع يصلي على النبي) صلى الله عليه وسلم  (ويستفتح) ويتعوذ ولو نذرا لأن كل شفع صلاة (وقيل) لا يأتي في الكل وصححه في القنية

(قوله ولا يصلي إلخ) أقول: قال في البحر في باب صفة الصلاة: إن ما ذكر مسلم فيما قبل الظهر، لما صرحوا به من أنه لا تبطل شفعة الشفيع بالانتقال إلى الشفع الثاني منها، ولو أفسدها قضى أربعا، والأربع قبل الجمعة بمنزلتها. وأما الأربع بعد الجمعة فغير مسلم فإنها كغيرها من السنن، فإنهم لم يثبتوا لها تلك الأحكام المذكورة اهـ ومثله في الحلية، وهذا مؤيد لما بحثه الشرنبلالي من جوازها بتسليمتين لعذر.(قوله ولو نذرا) نص عليه في القنية، ووجهه أنه نفل عرض عليه الافتراض أو الوجوب أفاده ط.(قوله لأن كل شفع صلاة) قدمنا بيان ذلك في أول بحث الواجبات، والمراد من بعض الأوجه كما يأتي قريبا (قوله وقيل لا إلخ) قال في البحر: ولا يخفى ما فيه والظاهر الأول. زاد في المنح ومن ثم عولنا عليه وحكينا ما في القنية بقيل."

(كتاب الصلوة ، باب الوتر و النوافل جلد 2 ص: 16 ط: دارالفكر)

فقط والله اعلم 


فتوی نمبر : 144503102933

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں