ظہر کی فرض نماز سے پہلے والی 4 سنتیں اگر رہ جائیں اورفرض نماز کےبعد پڑھ لی جائیں تو اس تاخیر پر گناہ ملے گا یا نہیں؟
ظہر سے پہلے کی چار سنتیں ،مؤکدہ ہیں،اور ان کی ادائیگی کا اصل وقت فرض نماز سے پہلے کا ہی ہے؛لہٰذاانہیں حتی الوسع بلا عذر ان کے وقت سے مؤخر نہیں کرنا چاہیے؛،اگر کوئی شخص کبھی کبھار یہ سنتیں فرض نماز کے بعد پڑھتا ہےتو بھی وہ سنتوں کو ادا کرنے والا شمار ہوگااور اس سے گناہ نہیں ملے گا،لیکن فرض نماز سے پہلے ہی ان سنتوں کو ادا کرنے کا اہتمام کرنا چاہیے۔
بخاری شریف میں ہے:
"عن عائشة رضي الله عنها: أن النبي صلى الله عليه وسلم كان لا يدع أربعا قبل الظهر، وركعتين قبل الغداة."
(كتاب التهجد، باب الركعتان قبل الظهر، ج:1، ص:157، ط:قديمي)
فتاوی شامی میں ہے:
"(وسن) مؤكدا (أربع قبل الظهر.
(قوله وسن مؤكدا) أي استنانا مؤكدا؛ بمعنى أنه طلب طلبا مؤكدا زيادة على بقية النوافل، ولهذا كانت السنة المؤكدة قريبة من الواجب في لحوق الإثم كما في البحر، ويستوجب تاركها التضليل واللوم كما في التحرير: أي على سبيل الإصرار بلا عذر."
(كتاب الصلاة، باب الوتر والنوافل، مطلب في السنن والنوافل، ج:2، ص:12، ط:سعيد)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144505100943
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن