بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

زوحان نام رکھنا


سوال

آپ نے ایک فتوے میں "زوحان" نام رکھنے سے منع کیا ہے،فتویٰ درج ذیل ہے:

"روحان اور زوحان نام رکھنا

فتوی نمبر 144203200914

کتاب:  حقوق و آدابِ معاشرت  - باب: حقوق -  فصل: اولاد کے حقوق

سوال :"محمد زوحان" اور  "محمد روحان" نام رکھنا جائز ہے؟

جواب : "رَوْحَان" عربی زبان کا لفظ ہے، اس کے معنی ہیں: خوش گوار، بادِ نسیم، مہربانی، رحم، خوشی و مسرت/ (القاموس الوحید)۔ اس لفظ کے معانی اچھے ہیں؛ لہذا یہ نام رکھنا درست ہے۔

"زَوْحَان" بھی عربی زبان کا لفظ ہے، اس کے معنی ہیں: ہٹنا، الگ ہونا۔ (القاموس الوحید)۔ اس نام کے بجائے کسی نبی علیہ السلام یا کسی صحابی (رضی اللہ عنہ) کا نام رکھ لیا جائے۔"

میں نے اس بارے میں آپ سے پوچھنا تھا  کہ میں نے نیٹ سے چیک کیا تھا اور کچھ کتابوں میں بھی دیکھا  "زوحان"  نام کے معنی اللہ کا تحفہ ہے۔اس لیے اس بارے میں وضاحت فرمائیں!

جواب

نیٹ پر موجود معلومات کے مطابق "زوحان "  کا معنی "اللہ   کی طرف سے تحفہ "  ہندی زبان میں ہے، اور ہندی میں بھی غالبًا یہ لفظ "ح" کے بجائے "ہ" سے ہے، یعنی "زوحان" کے بجائے "زوہان"  ہے۔ جب کہ اردو  اور  عربی زبان میں "زوحان" اس معنی کے لیے استعمال نہیں ہوتا، اگر اس معنی  کی تصدیق  ہندی زبان کی کسی معتبر لغت سے ہوجاتی ہے تو پھر مذکورہ معنی (اللہ کی طرف سے تحفہ)    کا لحاظ رکھتے ہوئے نام رکھنا تو درست ہوگا،  البتہ بہتر اور مناسب یہ ہی ہے کہ انبیاء اور صحابہ رضی اللہ عنھم اجمعین کے ناموں میں کوئی نام رکھا جائے، یا عربی زبان کا اچھے معنی والا نام رکھا جائے۔

یہ بھی ملحوظ رہے کہ  نیٹ پر موجود بہت سے ناموں کے حوالے سے معلومات ناقص یا غلط ہیں، اکثر و بیشتر ناموں کا معنی "اللہ کا تحفہ  " لکھا  گیا ہے، لہٰذا جب تک کسی مستند عالم  یا کسی مستند دینی ادارے سے راہ نمائی نہ لے لیں یا کسی مستند کتاب میں نہ دیکھ لیں صرف نیٹ کی معلومات پر اعتماد درست نہیں ہے، سائل نے اگر ہندی زبان کی کسی مستند کتاب میں "زوحان" کا معنی "اللہ کا تحفہ" لکھا ہوا دیکھا ہے اور اہلِ لسان بھی اس کی تصدیق کرتے ہیں تو وہ اس پر اعتماد کرسکتاہے، لیکن اگر کسی عربی یا اردو  کی کتاب میں یہ معنی لکھا ہے تو وہ درست نہیں ہے۔ 

الفتاوى الهندية میں ہے:

"«وفي الفتاوى التسمية باسم لم يذكره الله تعالى في عباده ولا ذكره رسول الله صلى الله عليه وسلم و لا استعمله المسلمون تكلموا فيه والأولى أن لايفعل، كذا في المحيط."

(کتاب الکراہیۃ باب ثانی و عشرون ج نمبر ۵ ص نمبر ۳۶۲،ایچ ایم سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144205201191

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں