بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

5 ذو القعدة 1446ھ 03 مئی 2025 ء

دارالافتاء

 

زندگی میں اولاد کے درمیان جائیداد تقسیم کرنے کا طریقہ۔


سوال

ایک شخص اپنی زندگی میں اپنا سرمایہ اپنی اولاد میں تقسیم کرنا چاہتاہے، اس کا شرعی طریقہ کار کیا ہے؟ 

کل افراد  یہ ہیں :1:سائل خود ،2:بیوی، 3:دو بیٹیاں۔  

نوٹ :سائل کی تین بہنیں بھی ہیں ،کیا انہیں بھی وراثت میں سے حصہ دینا ضروری ہے یا نہیں؟

جواب

واضح رہے کہ زندگی میں اگر کوئی اپنی جائیداد تقسیم کرنا چاہتاہے تو وہ ہبہ (گفٹ) کہلاتا ہے،اور ہبہ میں اولاد کے درمیان برابری ضروری ہوتی ہے،کسی ایک کو دوسروں پر ترجیح دینا درست نہیں ،لہذا صورتِ مسئولہ اگر سائل اپنی زندگی ہی میں اپنی جائیداد اپنی اولاد کے درمیان تقسیم کرنا چاہے تو اس کا طریقہ یہ ہے کہ اپنےلئے اس قدر رکھ لے کہ جس سے بقیہ زندگی بغیر محتاجگی کے گزار سکے اور جتنا اپنی بیوی کو دینا چاہے دے دے، لیکن  بہتر یہ ہے کہ بیوی کو جائیداد کا آٹھویں حصے سے کم نہ  دے، اس کے بعد  باقی جائیداد دونوں بیٹیوں میں  برابر تقسیم کرے، بلا وجہ کسی کو  کم اور کسی کو زیادہ نہ دے ، البتہ اگر کسی کو فرمانبرداری، خدمت، دین داری یا محتاجگی کی وجہ سے زیادہ دینا چاہے تو اس کی گنجائش ہے،تقسیم کر کے ہر ایک کو اس کا حصہ علیحدہ کرکے اس  پر مکمل قبضہ اور تصرف کا اختیار بھی دے دے۔

اور سائل کا زندگی میں اپنی بہنوں کو اپنی جائیداد میں سے  حصہ دینا ضروری نہیں ہے ، البتہ اپنی خوشی سے ان کو کچھ دینا چاہے تو دے سکتاہے۔ نیز مرنے کے بعد اولاد نرینہ نہ ہونے کی صورت میں ان کا وراثت میں حصہ ہوتا ہے۔

مشکاۃ المصابیح میں ہے:

"وعن النعمان بن بشير أن أباه أتى به إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: إني نحلت ابني هذا غلاماً، فقال: أكل ولدك نحلت مثله ؟قال: لا قال:فأرجعه و في رواية ...... قال: فاتقوا الله واعدلوا بين أولادكم."

(باب العطایا، ج:1، ص:261، ط: قدیمی)

"ترجمہ:حضرت نعمان ابن بشیر  رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ (ایک دن ) ان کے والد (حضرت بشیر رضی اللہ عنہ) انہیں رسول کریمﷺ کی خدمت میں لائے اور عرض کیا کہ میں نے  اپنے اس بیٹے کو ایک غلام ہدیہ کیا ہے، آپ ﷺ نے فرمایا : کیا آپ نے اپنے سب بیٹوں کو اسی طرح ایک ایک غلام دیا ہے؟، انہوں نے کہا :  ”نہیں “، آپ ﷺ نے فرمایا: تو پھر (نعمان سے بھی ) اس غلام کو واپس لے لو۔ ایک اور روایت میں آتا ہے کہ ……  آپ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالی سے ڈرو اور اپنی اولاد کے درمیان انصاف کرو۔"

(مظاہر حق،باب العطایا ،ج:3، ص: 193، ط: داراالاشاعت)

البحرائق میں ہے:

"‌يكره ‌تفضيل بعض الأولاد على البعض في الهبة حالة الصحة إلا لزيادة فضل له في الدين وإن وهب ماله كله الواحد جاز قضاء وهو آثم."

(كتاب الهبة،باب هبة الاب لطفله، ج:7، ص: 288، ط:دارالکتاب الاسلامی)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"ومنها أن يكون الموهوب مقبوضا حتى لا يثبت الملك للموهوب له قبل القبض وأن يكون الموهوب مقسوما إذا كان مما يحتمل القسمة."

(کتاب الھبۃ،ج:4،ص:374،ط:سعید)

دررالحکام میں ہے:

"‌لأن ‌للإنسان ‌أن ‌يتصرف ‌في ‌ملكه الخاص كما يشاء وليس لأحد أن يمنعه عن ذلك ما لم ينشأ عن تصرفه ضرر بين لغيره."

(دررالحکام،الباب الرابع فی بیان المسائل التی تتعلق بمدۃ الاجارۃ،ج:1،ص:559،ط: دارالجیل)

فتاوی محمودیہ میں ہے:

" ہر شخص اپنی زندگی میں اپنی مملوکہ جائیداد میں تصرف کا مختار ہے ، جس کو جس قدر مناسب سمجھے دےدے کسی کو اعتراض کاحق نہیں، البتہ اتناضرور ہے کہ کسی ہونے والے وارث کو طبعی رنج کی وجہ سے ضرر پہنچانا مقصود نہ ہو ، اس لئے ایسی حالت میں مفتی بہ قول کے مطابق لڑکی کو بھی لڑکے کے برابر حصہ دیا جائے ، آٹھواں حصہ نکال کر موجودہ بیوی کو دیا جائے  ۔"

(کتاب الفرائض،ج:20،ص :148،ط :ادارہ الفاروق کراچی)

 فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144609101023

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں