بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

ظلم و تشدد کی وجہ سے طلاق یا خلع کا مطالبہ کرنا


سوال

میں نے تیرہ سال پہلے اپنی بیٹی کی شادی اپنے بھانجے سے کی تھی ،کچھ ہی عرصہ بعد اس نے میری بیٹی پر ظلم و تشدد شروع کر دیا ،میری بیٹی کے تین بچے بھی ہو گئے ہیں لیکن اس نے مارنا نہیں چھوڑا ہے ،پھر اس  نے دوسری شادی کرلی ،میری بیٹی سمجھی کہ اب میری جان چھوٹ جائے گی ،لیکن وہ باز نہیں آیا ،کچھ دن پہلے اس کی ٹانگ جل گئی ،لیکن وہ اس کو ڈاکٹر کے پاس تک نہیں لے گیا ،اگر میں اس کو فورا نہیں لے جاتا تو ٹانگ کے ضائع ہونے کا خطرہ تھا ،اب میری بیٹی تنگ آگئی ہے اور اس کے ساتھ  رہنا نہیں چاہتی ہے ،میری بیٹی  اپنی  ساس  کے ساتھ اپنے شوہر کے گھر میں رہتی ہے،کھانا وغیرہ  بھی  وہیں اس کے ساتھ ہی کھاتی ہے لیکن اس کے ظلم سے بہت تنگ ہے ،مجھے مشورہ دیں کہ کیا میں اپنی بیٹی کو اس سے الگ کر سکتا ہوں ،میری بیٹی  اس کے ساتھ نہیں رہنا چاہتی ہے۔

جواب

صورت مسئولہ میں  سائل کی بیٹی کو  چاہیے  کہ   نباہ کی پوری کوشش کرے اور صبر  سے کام لے،   اگر مار پیٹ  عدم برداشت تک  پہنچ جائے تو پہلے اپنے خاندان کے معزز افراد کو  شوہر  کے خاندان کے معزز افراد  کے پاس بھیج دے  تاکہ وہ فیصلہ کریں اگر وہ صلح کی کوشش اور شوہر کو ظلم و ستم سے باز آنے کا کہیں اور شوہر آئندہ اچھا رویہ رکھنے کی یقین دہانی کرائے تو اچھا ہے لیکن اگر  نباہ کی کوشش کامیاب نہیں ہوتی  اور شوہر ظلم سے باز نہیں آتا ہے  تو اس صورت میں سائل کی بیٹی اپنے شوہر سے طلاق کا مطالبہ کرے ،اگر وہ طلاق نہ دے تو مہر معاف کرنے کے بدلہ میں خلع کا مطالبہ کرسکتی ہے ،طلاق یا خلع کے بعد عدت گزار کر دوسری جگہ نکاح کرنے میں آزاد ہوگی ۔

فتاوی شامی میں ہے:

"وفی القھستانی عن شرح الطحاوی: السنۃ اذا وقع بین الزوجین اختلاف ان یجتمع اھلہما لیصلحوا بینہما ، فان لم یصطلحا جاز الطلاق و الخلع ۔وھذا ھو الحکم المذکور فی الآیۃ۔"

(باب الخلع جلد ۳  ص۴۴۱ مکتبہ ایچ ایم سعید)

الدر المختار میں ہے:

(ادعت على زوجها ضربا فاحشا وثبت ذلك عليه عزر، كما لو ضرب المعلم الصبي ضربا فاحشا) فإنه يعزره ويضمنه لو مات شمني

(کتاب الحدود،باب التعزیر،ج:4ص:79،ط:سعید)

  فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144304100340

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں