مجھ پر ایک لاکھ روپے قرض ہیں مگر میرے پاس صرف پچاس ہزار روپے موجود ہیں کیا مجھ پر قربانی یا زکوٰۃ ہو گی؟
اگر کسی شخص کے اوپر قرض ہو ، اور اس کے پاس کچھ مال بھی ہو تو اگر یہ مال اتنا ہو کہ ایامِ عید الاضحیٰ تک واجب الادا قرض ادا کرنے کے بعد بھی اس کے پاس بنیادی ضرورت سے زائد، نصاب کے بقدر یعنی ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابر مال یا ضرورت سے زائد سامان بچا رہتا ہے، تو ایسے شخص پر قربانی واجب ہوگی او راگر قرض ادا کرنے کے بعد نصاب سے کم مال بچے، تو اس پر قربانی واجب نہیں ہوگی۔
صورتِِ مسئولہ میں اگرسائل کے پاس قربانی کے تین دنوں میں پچاس ہزار کے علاوہ اتنا سونا،چاندی یا ضرورت سے زائد سامان موجود ہو کہ اگر وہ اس میں سے قرضہ ادا کر دے تو اس کے پاس ساڑھے باون تولہ چاندی کی مالیت کے بقدر بچ جائےتو اس پر قربانی واجب ہو گی اور اگر قرضہ ادا کرنے کے بعد نصاب کے بقدر مال نہیں بچتا تو ایسی صورت میں قربانی لازم نہیں ہو گی۔
البتہ زکوٰۃ کے وجوب میں تھوڑا فرق ہے کہ اگر سائل کے پاس سونا چاندی نہیں ہے، اور نقدی بھی صرف ایک لاکھ روپے ہے تو اس پر زکوٰۃ واجب نہیں ہے، لیکن اگر نقدی کے ساتھ کچھ سونا یا چاندی بھی ملکیت میں ہے، تودیکھا جائے گا کہ قرض کی ادائیگی کے بعد اور بنیادی ضروری اخراجات نکال کر اگر نقدی، سونا چاندی کی مجموعی مالیت ساڑھے باون تولہ چاندی کی مالیت کے برابر یا اس سے زائد ہے اور اس پر سال بھی گزر جائے تو زکوۃ واجب ہو گی اور اگر بنیادی ضروری اخراجات اور قرض ادا کر نے کے بعد بقیہ مال نصاب سے کم ہے تو اس صورت میں نصاب سے کم مالیت پر زکوۃ نہیں ہے۔
فتاوى هندية میں ہے :
'' ولو كان عليه دين بحيث لو صرف فيه نقص نصابه لا تجب''.
(کتاب الاضحیۃ،5/ 292،دارالفکر)
فتح القدير لكمال بن الهمام میں ہے :
"( ومن كان عليه دين يحيط بماله فلا زكاة عليه ) وقال الشافعي : تجب لتحقق السبب وهو ملك نصاب تام .
ولنا أنه مشغول بحاجته الأصلية فاعتبر معدوما كالماء المستحق بالعطش وثياب البذلة والمهنة ( وإن كان ماله أكثر من دينه زكى الفاضل إذا بلغ نصابا ) لفراغه عن الحاجة الأصلية ، والمراد به دين له مطالب من جهة العباد حتى لا يمنع دين النذر والكفارة ".
(كتاب الزكاة، 160/2،دار الفکر)
فقط و الله أعلم
فتوی نمبر : 144511100612
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن