بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

زکوۃ کی رقم سے مسجد کا کیس لڑنا


سوال

کیا زکٰوۃ کے پیسوں سے عدالت میں مسجد کا کیس لڑ سکتے ہیں ؟

جواب

صورت مسئولہ میں مسجد میں زکوۃ دینا جائز نہیں کیوں کہ زکوۃ  اداہو نے  کے لئے یہ ضروری ہے کہ زکوۃ  کی رقم کسی مستحق کو  بلامعاوضہ   مالک بنا کر دی  جائے ،لہذا   زکوۃ کے پیسوں سے مسجد کا کیس لڑنا جائز نہیں ،اسی طرح مسجد میں زکوۃ  دینے سے زکوۃاد بھی نہیں ہو گی ۔

فتاوی ہندیہ میں ہے :

"ولا يجوز ‌أن ‌يبني ‌بالزكاة ‌المسجد، وكذا القناطر والسقايات، وإصلاح الطرقات، وكري الأنهار والحج والجهاد وكل ما لا تمليك فيه، ولا يجوز أن يكفن بها ميت، ولا يقضى بها دين الميت كذا في التبيين، ولا يشترى بها عبد يعتق، ولا يدفع إلى أصله، وإن علا، وفرعه، وإن سفل كذا في الكافي. ولا يعطى للولد المنفي."

(188/1،ط دار الفكر)

الدرالمختارمیں ہے :

"هي تمليك جزء مال عينه الشارع من مسلم فقيرغير هاشمي ولا مولاه مع قطع المنفعة عن المملك من كل وجه لله تعالى."

(256/2،ط سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144309100353

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں