بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

30 شوال 1445ھ 09 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

زکوۃ کی رقم سے مدرسہ تعمیر كرنے كا حكم


سوال

ہمارے گاؤں میں ایک مدرسہ ہے جو تقریباً پندرہ سال پہلے تعمیر کیا تھا، اب عمارت بالکل بوسیدہ ہو چکی ہے، ہمیں دوبارہ تعمیر کی سخت ضرورت ہے، کیوں کہ ہمارے گاؤں میں کوئی دوسرا مدرسہ نہیں ہے، اب میرا سوال ہے کہ کیا زکوۃ کے پیسوں سے مدرسہ کی تعمیر کی جاسکتی ہے؟

نوٹ: ہمارے مدرسے میں رہائشی طلباء نہیں، گاؤں کے بچے صبح کو پڑھنے آتے ہیں اور شام کو واپس چلے جاتے ہیں۔

جواب

واضح رہے کہ زکوۃ مستحقِ زکوۃ کو بغیر کسی عوض کے مالک بنا کر دینا ضروری ہے، اس کے بغیر زکوۃ ادا نہیں ہوگی، لہذا زکوۃ کی رقم سے مسجد و مدرسہ کی تعمیر کرنا جائز نہیں اور اس سے زکوۃ دینے والوں کی زکوۃ بھی ادا نہیں ہوگی، البتہ اس کے لیے یہ صورت اختیار کی جا سکتی ہے کہ کسی مستحقِ زکوۃ شخص کو قرض دے کر اس سے مدرسہ کی تعمیر کروالی جائے، پھر قرض کی ادائیگی کے لیے اس مستحق کو زکوۃ کی رقم مالک بنا کر دی جائے تاکہ  وہ اس سے اپنا قرض ادا کردے۔

حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح  میں ہے:

"هو الفقير وهو: من لا يملك مالا يبلغ نصابا ولا قيمته من أي مال كان ولو صحيحا مكتسبا والمسكين وهو: من لا شيء له والمكاتب والمديون الذي لا يملك نصابا ولا قيمته فاضلا عن دينه وفي سبيل الله وهو منقطع الغزاة أو الحاج وابن السبيل."

(باب المصرف:719،ط:دار الكتب العلمية بيروت)

الدر المختار  میں ہے:

"(هي) لغة الطهارة والنماء، وشرعا (تمليك) (جزء مال عينه الشارع ) وهو ربع عشر نصاب حول يخرج النافلة والفطرة (من مسلم فقير) ولو معتوها (غير هاشمي ولا مولاه مع قطع المنفعة عن المملك من كل وجه) فلا يدفع لأصله وفرعه (لله تعالى)."

(كتاب الزكاة:2 /256،ط:سعید)

فقط و اللہ اعلم


فتوی نمبر : 144309100759

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں