بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

زکاۃ کی رقم مدرسہ کے طلبہ پر خرچ کر نے کا حکم


سوال

میں ایک کاروبای آدمی ہوں میرے مختلف کاروبار ہیں ،ساتھ میں ایک دینی مدرسہ کا اہتمام بھی ہے،پوچھنا یہ ہے کہ کیا میں اپنے تمام کاروبار سے جو زکوة نکل آتی ہے اسے اِس مدرسے کے اخرجات کے مد میں استعمال کرسکتاہوں؟اگر نہیں تو اس کا صحیح طریقہ کا ہو گا؟

جواب

واضح رہے کہ زکوٰۃ  ادا ہونے کے لیے یہ ضروری ہے کہ  اسے کسی مسلمان، مستحقِ زکوٰۃ شخص کو بغیر عوض کے مالک بناکر دیا جائے۔صورت مسئولہ میں اگر مذکورہ مدرسے میں مستحقِ زکاۃ طلبہ پر زکاۃ خرچ کرنے کا مصرف ہے، (مثلاً انہیں امدادی وظائف جاری کیے جاتے ہوں یا ان کے علاج معالجہ اور  کھانے وغیرہ کا انتظام کیا جاتا ہو)  تو سائل مذکورہ مدرسہ کے مستحقینِ زکاۃ طلبہ کے لیےزکاۃ دے سکتا ہے۔ ورنہ جس مدرسے میں مستحقین پر خرچ کرنے کا اہتمام ہو وہاں زکاۃ دے سکتے ہیں۔اسی طرح  زکاۃ کی رقم کو مدرسہ کی  تعمیرات میں خرچ کرنا   اور  مدرسین یا مدرسہ کے عملہ وغیرہ  کو  زکوٰۃ کی رقم سے تنخواہیں دینا جائز نہیں ہے؛  کیوں کہ تنخواہ کام کے عوض میں ہوتی ہے ،  جب کہ زکوٰۃ  بغیر عوض کے مستحق کو مالک بناکر دینا ضروری ہوتا ہے، نیز تنخواہ کی مد میں زکوٰۃ دینے سے زکوٰۃ دینے والوں کی زکوٰۃ بھی ادا نہیں ہوگی۔

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"ولو نوى الزكاة بما يدفع المعلم إلى الخليفة، ولم يستأجره إن كان الخليفة بحال لو لم يدفعه يعلم الصبيان أيضا أجزأه، وإلا فلا." 

(كتاب الزكوة، الباب السابع فى المصارف، ج:1، ص:190، ط:مكتبه رشيديه)

فتاوی محمودیہ میں ہے:

"زکوۃ کے پیسہ سے تنخواہ دینا جائز نہیں، جب مستحق کے پاس بطورِ ملک پہنچ جائےگا  تب زکوۃ ادا ہوگی، پھر وہ بغیر کسی دباؤ کے اپنی طرف سے بطیب خاطر مدرسہ میں دے دے تو تنخواہ میں دینا درست ہوگا۔"

(ج۱۵ / ص۵۹۶) 

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144310101383

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں