بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

زکوۃ کی رقم سے کسی اور کا قرضہ ادا کرنے کا حکم


سوال

 ہمارا ایک دوست ہے، جسے ہم بچپن سے جانتے ہیں، وہ اپنا کاروبار کرتا ہے، اسے اپنے کام میں نقصان ہوا ہے، اور ڈکیتی بھی ہوئی، اس سے چھ سے سات لاکھ کا نقصان ہوا، اس وقت وہ پندرہ لاکھ کے قریب مقروض ہے، بہت پریشان ہے، قرضہ اتارنا چاہتا ہے مگر اتنی طاقت نہیں ہے، دیندار ہے، بہت ڈرتا ہے اور روتا ہے، پیچھے سے تقاضا بھی ہے، اس حال میں موت نہ آجائے، ہم دو تین دوست اس کی مدد کرنا چاہتے ہیں، لیکن ہماری بھی مالی طاقت اتنی نہیں ہے کہ ہم اس کا قرضہ اتارسکیں، آپ سے پوچھنا یہ ہے کہ ہم اپنی زکوۃ کی رقم سے اس کا قرضہ اتارنے میں مدد کرسکتے ہیں، جبکہ ہمیں علم ہے کہ اس نے کس کو کتنا دینا ہے، زکوۃ کے ذریعے سے اس کا قرضہ بھی اتر جائے گا اور ہماری زکوۃ بھی ادا ہوجائے گی۔

جواب

صورت مسئولہ میں سائل اور کچھ دوست اپنے مقروض دوست کا زکوۃ کی رقم سے قرض ادا کرنا چاہتے ہیں، تو اس کا طریقہ یہ ہے کہ اگر سائل کا مقروض دوست زکوۃ کا مستحق ہے اور سید اور ہاشمی نہیں ہے، تو اس کو زکوۃ کی رقم دے دیں اور وہ مقروض دوست اس رقم سے اپنا قرض ادا کردیں تو زکوۃ بھی ادا ہوجائے گی اور قرض بھی ختم ہوجائے گا، لیکن اگر سائل اور ان کے دوست بذات خود زکوۃ کی رقم سے قرض ادا کریں، اور دوست (یعنی مستحق زکوۃ) کو نہ دیں تو اس صورت میں قرض تو ادا ہوجائے گا لیکن زکوۃ ادا نہیں ہوگی، کیونکہ کہ زکوۃ کی ادائیگی کےلئے مستحق غیر سید، ہاشمی کو زکوۃ کی رقم کا مالک بنا کر دینا شرط ہے، لہذا جب بذات خود زکوۃ کی رقم سے قرض ادا کریں گے تو مالک بنانے کی شرط نہیں پائی جائے گی تو زکوۃ ادا نہیں ہوگی۔

فتاوی شامی میں ہے:

"ويشترط أن يكون الصرف (تمليكا) لا إباحة كما مر (لا) يصرف (إلى بناء) نحو (مسجد و) لا إلى (كفن ميت وقضاء دينه) أما دين الحي الفقير فيجوز لو بأمره، ولو أذن فمات فإطلاق الكتاب يفيد عدم الجواز وهو الوجه نهر۔ قال ابن عابدین: (قوله: فإطلاق الكتاب) يعني الهداية أو القدوري حيث أطلقا دين الميت عن التقييد بالأمر وأصل البحث لابن الهمام في شرح الهداية حيث قال وفي الغاية عن المحيط والمفيد لو قضي بها دين حي أو ميت بأمره جاز وظاهر الخانية يوافقه، لكن ظاهر إطلاق الكتاب يفيد عدم الجواز في الميت مطلقا، وهو ظاهر الخلاصة أيضا حيث قال لو ‌قضي ‌دين ‌حي أو ميت بغير إذن الحي لا يجوز فقيد الحي وأطلق الميت. اهـ"

(‌‌كتاب الزكاة، باب مصرف الزكاة والعشر: / 345، ط: سعید)

فتح القدیر میں  ہے:

"وفي الغاية نقلا من المحيط والمفيد: لو قضى بها دين حي أو ميت بأمره جاز، ومعلوم إرادة قيد فقر المديون، وظاهر فتاوى قاضي خان يوافقه، لكن ظاهر إطلاق الكتاب وكذا عبارة الخلاصة حيث قال: لو بنى مسجدا بنية الزكاة أو حج أو أعتق أو ‌قضى ‌دين ‌حي أو ميت بغير إذن الحي لا يجوز عدم الجواز في الميت مطلقا؛ ألا ترى إلى تخصيص الحي في حكم عدم الجواز بعدم الإذن وإطلاقه في الميت وقد يوجه بأنه لا بد من كونه تمليكا للمديون والتمليك لا يقع عند أمره بل عند أداء المأمور وقبض النائب، وحينئذ لم يكن المديون أهلا للتمليك لموته."

(‌‌كتاب الزكاة، باب من يجوز دفع الصدقة إليه ومن لا يجوز: 2/ 268، ط: دار الفكر، لبنان)

بدائع الصنائع میں ہے:

"وكذلك إذا اشترى بالزكاة طعاما فأطعم الفقراء غداء وعشاء ولم يدفع عين الطعام إليهم لا يجوز لعدم التمليك...  لأنه لم يوجد التمليك من الفقير لعدم قبضه، ولو قضى دين حي فقير إن قضى بغير أمره لم يجز؛ لأنه لم يوجد التمليك من الفقير لعدم قبضه وإن كان بأمره يجوز عن الزكاة لوجود التمليك من الفقير؛ لأنه لما أمره به صار وكيلا عنه في ‌القبض ‌فصار كأن الفقير قبض الصدقة بنفسه وملكه من الغريم."

(كتاب الزكاة، فصل ركن الزكاة: 2/ 39، ط: سعید)

فقط  واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144401100588

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں