بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 ذو القعدة 1445ھ 20 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

زکوۃ کی رقم سے ہسپتال کی مشین صحیح کرنے کا حکم


سوال

 ہم چھ ڈاکٹر ہیں سندھ گورنمنٹ ہاسپٹل میں، ہمارے ڈیپارٹمنٹ میں الٹراساؤنڈ مشینیں اور اے سی (AC) خراب ہوجاتے ہیں، لیاقت آباد ہاسپٹل کے ارد گرد غریب لوگ ہیں، پرائیویٹ الٹراساؤنڈ وغیرہ نہیں کرواسکتے اور سندھ گورنمنٹ کے پاس بجٹ نہیں ہوتا کہ ان چیزوں کو بنواسکیں، اس کی وجہ سے غریب مریض ہمیشہ پریشان رہتے ہیں،ہم ڈاکٹرز خود اپنے پیسوں سے بنواکر کام چلاتے ہیں، پوچھنا یہ ہے کہ مشینوں اور اے سی (AC) پر تقریبا پچاس ہزار روپے خرچہ آتا ہے، آیا یہ پیسے ہم ڈاکٹرز زکوۃ کی مد میں سے خرچ کرسکتے ہیں یا نہیں؟

جواب

صورت مسئولہ میں ڈاکٹرز کی جانب سے زکوۃ کی رقم سے الٹراساؤنڈ مشینیں اور اے سی (AC) کی خرابی درست کرنا جائز نہیں، خواہ زکوۃ کی وہ رقم ذاتی ہو یا مخیر لوگوں کی جانب سے دی گئی ہو، اس لیے کہ زکوۃ کی ادائیگی کے لیے زکوۃ کی رقم کسی مستحق کو مالک بناکر دینا شرط ہے، اگر مالک بناکر نہیں دیا گیا تو زکوۃ ادا نہیں ہوگی، لہذا اگر ڈاکٹرز نے زکوۃ کی رقم مذکورہ مشینوں کی درستگی کے لیے صرف کی تو زکوۃ ادا نہیں ہوگی بلکہ ڈاکٹرز کے کے ذمہ بدستور زکوۃ ادا کرنا واجب ہوگا، البتہ شدید مجبوری میں ایک صورت یہ ہوسکتی  ہے کہ زکوۃ کی رقم کسی مسلمان مستحق کو جو سید ، ہاشمی نہ ہو مالک و مختار بناکر دے دیا جائے اور پھر اس سے درخواست کیا جائے کہ ان مشینوں کی درستگی میں تعاون کرے تاکہ غرباء کا فائدہ ہو، اور وہ شخص اپنی خوشی اور رضامندی سے تعاون کردے، تو ایسا کرسکتے ہیں تاہم اس غرض سے اس شخص پر کسی قسم کا جبر   اور  دباؤ ڈالنا جائز نہیں ہوگا۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(قوله: نحو مسجد) كبناء القناطر والسقايات وإصلاح الطرقات وكري الأنهار والحج والجهاد وكل ما لا تمليك فيه زيلعي (قوله: ولا إلى كفن ميت) لعدم صحة التمليك منه."

(‌‌كتاب الزكاة، باب مصرف الزكاة والعشر: 2/ 344، ط: سعید)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"أما تفسيرها فهي تمليك المال من فقير مسلم غير هاشمي، ولا مولاه ‌بشرط ‌قطع المنفعة عن المملك من كل وجه لله  تعالى هذا في الشرع كذا في التبيين."

(كتاب الزكاة، الباب الأول في تفسير الزكاة وصفتها وشرائطها: 1/ 170، ط: ماجديه)

البحر الرائق میں ہے:

"وفي اصطلاح الفقهاء ما ذكره المصنف (قوله هي تمليك المال من فقير مسلم غير هاشمي، ولا مولاه بشرط قطع المنفعة عن المملك من كل وجه لله تعالى) لقوله تعالى: وآتوا الزكاة۔ (البقرة: 43) والإيتاء هو التمليك، ومراده تمليك جزء من ماله، وهو ربع العشر أو ما يقوم مقامه... والمراد من إيتاء الزكاة إخراجها من العدم إلى الوجود كما في قوله: أقيموا الصلاة۔ (الأنعام: 72) كذا في المعراج."

(کتاب الزکاۃ: 2/ 216، دار الكتاب الإسلامي)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144310100809

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں