بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

زکات کی رقم سے گھر خرید کر مستحق کو دینا


سوال

ہمارے ایک دوست جو ضرورت مند ہیں،اور سفید پوش ہیں،ہم اُ س کی زکات کی رقم سے مدد کرنا چاہتے ہیں،اُسے مکان کی ضرورت ہے جس کے لیے ہم نے دوطریقے سوچے ہوئے ہیں:

1)ہم چند افراد اپنی اپنی  زکات کی رقم کسی ایک کے پاس بطورِ امانت رکھوادے،اورسودا ہونے پر وہ ضرورت مند شخص کی طرف سے مکان کے فروخت کنندہ  کوادا کریں۔

2)یا ہم مذکورہ ضرورت مند شخص کے نام پر اکاؤنٹ بنالیں اور وہ زکات کی رقم اس میں جمع کرتے رہیں،اور وہ اکاونٹ کارڈ،رسید وغیرہ ہم اپنے پاس رکھیں ،مذکورہ ضرورت مند شخص کو کسی قسم کا اختیار نہ دیں،اور مکان کا سودا کرکے وہ رقم اُس میں ملادیں۔

اب پوچھنا یہ ہے کہ کیا مذکورہ دونوں صورتیں درست ہیں؟اور اگر ان دوکے علاوہ کوئی بہتر صورت ہوتو وہ بھی بتادیں۔

جواب

واضح رہے کہ جس طرح کسی غریب، مستحقِ  زکوۃ  کو  زکوۃ کی  رقم  نقد  کی صورت میں دے سکتے ہیں، اسی طرح زکوۃ کی رقم سے  کوئی چیز  خرید کر کسی مستحق  کو مالک بناکر قبضہ دینے سے بھی  زکوۃ ادا ہوجاتی ہے،البتہ بلا ضرورت اتنی رقم دینا جس سے مستحقِ زکات صاحبِ نصاب بن جائے مناسب نہیں ،تاہم اگرکوئی ضرورت مند ہوتو بقدرِضرورت یک مشت رقم بھی دی جاسکتی ہے۔

لہذاصورتِ مسئولہ میں مذکورہ شخص اگر مکان کا سودا کر لے اور مکان کی قیمت کی ادائیگی اس پر لازم ہو جائے تو مکان کے قرض کی ادائیگی کےلیے   زکوۃ  اُسے دے سکتے ہیں، جو رقم آتی رہے وہ مقروض کو دیتے رہیں اور وہ ادائیگی کرے، یااگرابھی مکان کاسودا نہیں کیا ہے تو زکوۃ کی رقم اپنےپاس بھی جمع کر سکتے ہیں، لیکن اس صورت میں جب تک مستحق شخص کو مالک بنا کر زکوۃ نہیں دی جائے گی زکوۃ ادا نہیں ہوگی، البتہ سائل نے جو دوسری صورت ذکر کی ہے یہ مناسب نہیں ہے جواب میں ذکر کردہ دوصورتوں میں سے کسی ایک کو اختیار کر لیا جائے ۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"أما تفسيرها فهي تمليك المال من فقير مسلم غير هاشمي، ولا مولاه بشرط قطع المنفعة عن المملك من كل وجه لله  تعالى."

(كتاب ‌الزكاة، الباب الأول في تفسيرها وصفتها وشرائطها، ج1، ص170، ط: دار الفكر)

وفيها أيضا:

"إذا دفع الزكاة إلى الفقير لا يتم الدفع ما لم يقبضها أو ‌يقبضها ‌للفقير من له ولاية عليه نحو الأب والوصي يقبضان للصبي والمجنون كذا في الخلاصة".

(كتاب الزكوة، الباب السابع، ج:1، ص:190،ط: دار الفكر)

فتاوی شامی میں ہے:

"ويشترط أن يكون الصرف (تمليكا) لا إباحة."

(‌‌ كتاب الزكاة، باب المصرف، ج2، ص344، ط: سعید)

وفيها أيضا:

"ولا يخرج عن العهدة بالعزل بل بالأداء للفقراء".

(كتاب الزكوة، ج:2، ص:270، ط: سعيد)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144506102664

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں