بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

زکوٰۃ اور عطیات کے مد میں سے ضرورت کے وقت ایک ددوسرے کو قرض دینا


سوال

1۔مدرسے کے وہ اخراجات جن میں زکوٰۃ اور واجب صدقات لگانا درست نہیں ہے، اگر ان کا فنڈ کم ہو تو کیا زکوٰۃ وغیرہ مدات سے رقم قرض لی جاسکتی ہے؟ کن کن مدات سے اور کتنے عرصے کے لیے بطورِ قرض لی جاسکتی ہے؟

2- اگر قرض لی جاسکتی ہے تو کتنے عرصے تک کے لیے لی جاسکتی ہے؟

3- زکوٰۃ کی مد میں رقم ختم ہوجائے یا کم پڑے تو کیا عطیات وغیرہ کے فنڈ سے زکات فنڈ کے لیے قرض لیا جاسکتا ہے؟ کیا اس صورت میں بعد میں زکوٰۃ دینے والوں کی زکوٰۃ ادا ہوجائے گی؟ 

جواب

1.2.مدرسے کےوہ اخراجات جس میں زکوٰۃ و صدقات واجبہ کی رقم لگاناجائز نہیں اگرغیرزکوٰۃ وصدقات کے فنڈ میں  کمی ہوجائےتومدرسہ کا مہتمم زکوٰۃ کی مد سے قرض لےسکتاہے،جب عطیات کی رقم آجائے تو قرض کی رقم زکوٰۃ فنڈمیں جمع کرادی جائے۔اور اس کےلئے کوئی مدت متعین نہیں ہے البتہ جیسے ہی رقم مل جائے توفوراً قرض واپس کردیاجائے۔

3.جواب نمبرایک میں قرض کی ضرورت اس لئےپڑی تھی کہ غیرمصارفِ زکوٰۃ کے اخراجات کےلئےعطیات کی رقم نہیں تھی اور زکوٰۃ کی رقم عطیات کے مصارف میں استعمال کرناجائزنہیں تھا، اس لئے قرض کی   ضرورت پڑی ،جبکہ مصارف زکوٰۃ میں عطیات کی رقم خرچ کی جاسکتی ہے،قرض لینے کی ضرورت نہیں۔

مجمع الأنہر میں ہے:

وعلی الإمام أن یجعل لکل نوع بیتًا یخصه ولا یخلط بعضه ببعض فإن لم یوجد في بعضها شیئ فللإمام أن یستقرض عليه من النوع الاٰخر ویصرفه إلی اهل ذلک، ثم إذا حصل من ذلک النوع شئ رده إلی المستقرض منه إلا أن یکون المصرف من الصدقات أو من خمس الغنائم علی اهل الخراج، وهم فقراء فإنه لا یرد فيه شیئًا، وکذا في غیره إذا صرفه إلی  المستحق، ویجب علی الإمام أن یتق اﷲ ویصرف إلی کل مستحق قدر حاجته من غیر زیادة۔

 (کتاب السیر والجہاد/ج:2ص:486/ط:، دار الکتب )

فتاوى شامی میں ہے:

لأن الحيلة أن يتصدق على الفقير ثم يأمره بفعل هذه الأشياء وهل له أن يخالف أمره؟ لم أره والظاهر نعم۔۔۔۔وفی الشامية (قوله ثم يأمره إلخ) ويكون له ثواب الزكاة وللفقير ثواب هذه القرب بحر وفي التعبير بثم إشارة إلى أنه لو أمره أولا لا يجزئ؛ لأنه يكون وكيلا عنه في ذلك وفيه نظر؛ لأن المعتبر نية الدافع ولذا جازت وإن سماها قرضا أو هبة في الأصح كما قدمناه فافهم.

(باب مصرف الزكوة/ج:2/ص:345/ط:سعید)

فتاویٰ ہندیہ میں ہے:

فهي ‌تمليك ‌المال من فقير مسلم غير هاشمي، ولا مولاه بشرط قطع المنفعة عن المملك من كل وجه لله – تعالى۔

(كتاب الزكاة/ج:1/ص:170/ط:رشیدیہ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144302200031

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں