میرے شوہر کے دفتر میں ایک آدمی آیا جس کی عمر 70 سال سے زیادہ ہے اس نے کچھ پیسے مانگے۔ میرے شوہر نے اس کو پیسے دے دیے لیکن ان کے بارے میں ہم کچھ اور نہیں جانتے۔ کیا یہ زکوٰۃ میں شمار ہو سکتے ہیں؟
صورت مسئولہ میں زکاۃ کی ادائیگی کے لیے رقم دیتے وقت یا رقم کو جدا کرکے رکھتے وقت زکاۃ کی نیت کرنا شرعاً ضروری ہوتا ہے اور اگر کسی مستحق آد می کو رقم دی گئی ،اور وہ رقم اب تک اس کے قبضہ میں ہےخرچ نہیں کی ،کسی کو دی نہیں تو بھی زکاۃ کی نیت معتبر ہے ، لہذا اگر مذکورہ رقم دیتے وقت زکوۃ کی نیت تھی یا بعد میں نیت کی اور اس وقت تک وہ رقم اس غریب آدمی کے قبضہ میں تھی پھر تو زکاۃ کی نیت کر کے زکاۃ میں شمار کرنا صحیح ہو گا ورنہ نہیں ۔
فتاوى ہندية میں ہے :
'' ومن أعطى مسكيناً دراهم وسماها هبةً أو قرضاً ونوى الزكاة فإنها تجزيه، وهو الأصح، هكذا في البحر الرائق ناقلاً عن المبتغى والقنية.''
(1/ 171،الباب الاول فی تفسیرالزکاۃ وصفتھا وشرائطھا،ط:دارالفکر )
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144310100667
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن