بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

اپنی اور بیٹی کی طرف سے زکوٰۃ ادا کرنا


سوال

میں زکوٰۃ اس طرح سے ادا کرتا ہوں ،زیور کی حاضروقت کی مارکیٹ قیمت سے ،گھر کا جوسامان استعمال میں نہیں یعنی دو چیزیں ہیں مثلا گاڑی ،ریفریجریٹر  ،برتن،کمبل وغیرہ ان میں ایک استعمال میں ہو اور ایک ویسے گھر میں رکھا ہو ا ہے استعمال میں نہیں ہے،  اس میں  سے ایک چیز کی حاضری مارکیٹ قیمت کے حساب سے ،جورقم کاروبار میں لگی ہوئی ہے ابھی   وصول نہیں ہوئی،کاروبار میں لگی ہوئی رقم کا مطلب یہ ہے کہ سرمایہ ،بیسک اور اس سرمایہ پر منافع یا آمدنی ہوئی ہے تو یہ اس طرح میرے سرمایہ اور آمدنی ملاکر ہر سال میرے سرمائے میں اضافہ ہوجاتا ہے اب یہ رقم ابھی وصول نہیں ہوئی ،اس طرح تمام رقم جو کے میں نے اپنی پارٹی سے لینی ہیں اور اس طرح میں نے خود بھی کچھ پارٹیوں کو رقم دینی ہے یعنی مثال کے طور پر میں نے 5پارٹیوں کو پانچ لاکھ دینے ہیں، اور  اسی طرح میں نے پانچ پارٹیوں سے 6لاکھ وصول کرنے ہے ،اب میں وصول ہونے والی رقم سے دینے والی رقم منہا کرتاہوں ،اور اس ایک لاکھ کی رقم پر زکوٰۃ ادا کرتا ہوں، (اور جورقم میں نے دینے ہے اس کے ادا کرنے کے لیےوقت متعین نہیں ہوتا ،بلکہ سال کے اندر اندر ادا کرتا ہوں) جوکیش کی صورت میں اپنے پاس یا یا بنک میں ہے اس پر بھی او ر ان تمام چیزوں پر 2.5فیصد زکوٰۃ ادا کرتا ہوں۔

2۔بیٹی شادی شدہ ہے اور اس کے پاس جوزیور ہے اس کی زکوٰۃ بھی میں ادا کرتاہوں ، اس طور پر کہ جب سال پورا ہوتا ہے تو بیٹی مجھے کہتی ہے کہ آپ میری طرف سے زکوٰۃ ادا کریں ، تو میں موجودہ قیمت کے اعتبار سے حساب لگا کر جتنی زکوٰۃ بنتی ہے  اتنا میں بیٹی کے  حوالہ کرتا ہوں ، پھر بیٹی واپس مجھے دیتی ہے کہ آپ کسی فقیر کو دے دیں، کیوں کہ اس کے سسرال والے کہتے ہیں کہ یہ زیور تمہارا ہے جو کہ تجھے والد نے دیا ہے،اور سسرال کی طرف  سے جوزیور تھا اس کی زکوۃوہ خود  ادا کرتے ہیں ۔

اب پوچھنا  یہ ہے کہ کیا  اس طریقے سے زکوۃ کی ادائیگی درست ہے؟اگر نہیں تو زکوۃ ادا کرنے کاطریقہ  بتایئں ۔

جواب

واضح رہے کہ چار چیزوں پر زکوٰۃ واجب ہوتی ہے جب کہ وہ نصاب تک پہنچ جائیں، (1)سونا(2)چاندی(3)نقد رقم(4)مال تجارت ،ان کے علاوہ گھریلو اشیاء پر زکوٰۃ واجب نہیں ہوتی خواہ وہ استعمال میں آرہی ہوں یا نہ آرہی ہوں ؛لہذا صورت مسئولہ میں گھریلو شیاء گاڑی،فریج ،برتن،کمبل وغیرہ پر زکوٰۃ واجب نہیں خواہ استعمال میں آتے  ہوں یا نہ آتے ہوں ۔

صورت مسئولہ میں زکوٰۃ کا سال پورا ہونے پر سونے کی مارکیٹ میں قیمت فروخت لگا کر،اس کے ساتھ مال تجارت  کی قیمت لگا کر اور بینک میں جمع شدہ رقم اور جو رقم لوگوں سے لینی ہو ان تمام رقوم کو جمع کرکے جو قرض ادا کرنا ہو اس کو منہا (نکال )کر  کےباقی رقوم پر زکوٰۃ واجب ہوگی ،گھریلو مذکورہ اشیاء پر زکوٰۃ واجب نہیں ۔

2۔مذکورہ صورت میں سائل کا بیٹی کی طرف سے زکوٰۃ اد ا  کرنے سے بیٹی کے ذمہ زکوٰۃ ادا ہوجائے گی۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(وسببه) أي سبب افتراضها (ملك نصاب حولي) نسبة للحول لحولانه عليه (تام)."

(کتاب الزکاۃ،2/ 259ط:دارالفکر)

فتاوی شامی میں ہے:

"وليس في دور السكنى وثياب البدن وأثاث المنازل ودواب الركوب وعبيد الخدمة وسلاح الاستعمال زكاة؛ لأنها مشغولة بحاجته الأصلية وليست بنامية."

(کتاب الزکاۃ،2/ 262ط:دارالفكر)

فتاوی شامی  میں ہے:

" (وشرط صحة أدائها نية مقارنة له) أي للأداء (ولو) كانت المقارنة (حكما) كما لو دفع بلا نية ثم نوى والمال قائم في يد الفقير، أو نوى عند الدفع للوكيل ثم دفع الوكيل بلا نية

 (قوله ضمن وكان متبرعا) لأنه ملكه بالخلط وصار مؤديا مال نفسه. قال في التتارخانية: إلا إذا وجد الإذن أو أجاز المالكان اهـأي أجاز قبل الدفع إلى الفقير، لما في البحر: لو أدى زكاة غيره بغير أمره فبلغه فأجاز لم يجز لأنها وجدت نفاذا على المتصدق لأنها ملكه ولم يصر تائبا عن غيره فنفذت عليه اهـ."

(کتاب الزکاۃ ،ص: 268،269 ،ج:2 ،ط: دارالفکر)

البحر الرائق میں ہے:

"وشرط فراغه عن الدين؛ لأنه معه مشغول بحاجته الأصلية فاعتبر معدوما كالماء المستحق بالعطش، ولأن الزكاة تحل مع ثبوت يده على ماله فلم تجب عليه الزكاة كالمكاتب ولأن الدين يوجب نقصان الملك؛ ولذا يأخذه الغريم إذا كان من جنس دينه من غير قضاء، ولا رضا أطلقه فشمل الحال والمؤجل،"

(کتاب الزکاۃ،ج:2، ص:219،ط:دارالفکر)

 امداد الفتاوی جدید میں ہے:

"جواب سوال ثانی: قاعدہ کلیہ ہے کہ اگر نصاب نقود میں سے ہے، اس میں زکوٰۃ مطلقاً واجب ہے اور اگر دواب میں سے ہے اور سائمہ ہے تب بھی زکوٰۃ لازم ہے اور اگر غیر نقود و سوائم ہو تو نیت تجارت سے زکوٰۃ واجب ہے ورنہ نہیں ۔ "

(امداد الفتاوی ،ج:3،ص:559)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144303100440

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں