بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 جمادى الاخرى 1446ھ 13 دسمبر 2024 ء

دارالافتاء

 

زکوۃ کے مسائل


سوال

میرے پاس کچھ سونا ہے اور میرے تین بیٹے ہیں اور بیٹی میں نے دیور سے لی تھی جو کہ اب بارہ سال کی ہونے والی ہے میں اپنا زیور ان چاروں میں کس طرح تقسیم کروں ؟

مجھے بیٹی سے بہت محبت ہے میں چاہتی  ہوں  کہ سے زیادہ زیور دوں  تو کیا میں دے سکتی ہیں؟

نیز زیور بچوں کے نام کرنے کے بعد کیا میں پہن سکتی ہوں یا نہیں؟

میرے زیور کی زکات میرے شوہر ادا کرتے ہیں اور وہ ساری مدرسے کو جاتی ہے اس کے علاوہ اور بھی کافی رقم سے اپنے غریب رشتہ داروں کی مدد کی جاتی ہے ۔تو کیا زکوۃ  جو ہم نے پہلے ادا نہیں کی اب ہم اس کی نیت کر سکتے ہیں؟

 نیت مجھے بھی کرنا ضروری ہے یا صرف میرے شوہر ادا کریں گے؟

نیز کوئی بھی بچی حفظ کر رہی ہے تو کیا میں اس کی فیس زکوۃ کے پیسوں سے ادا کر سکتی ہوں ؟

جواب

ہر شخص اپنی زندگی میں اپنی جائیداد کا خود مالک  ومختار ہوتا ہے، وہ ہر جائز تصرف اس میں کرسکتا ہے، کسی کو یہ حق نہیں  ہے کہ اس کو اس کی اپنی ملک میں تصرف  کرنے سے منع کرے ،نیز والد ین کی زندگی میں اولاد وغیرہ کا اس کی جائیداد میں حصہ  نہیں  ہوتا،  اور نہ ہی کسی کو مطالبہ کا حق حاصل  ہوتا،  تاہم اگر صاحبِ جائیداد اپنی  زندگی میں  اپنی جائیداد  خوشی  ورضا مندی سے اولاد کے درمیان تقسیم کرنا چاہے تو کرسکتا ہے، اور اپنی زندگی میں جو جائیداد تقسیم کی جائے  وہ ہبہ (گفٹ) کہلاتی ہے اور اولاد کے درمیان ہبہ (گفٹ) کرنے میں برابری کا حکم  ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے اولاد کے درمیان ہبہ کرنے میں برابری کرنے کا حکم دیا ۔

جیساکہ نعمان بن بشیر رضی اللہ تعالی عنہ کی  روایت میں ہے:

"وعن النعمان بن بشير أن أباه أتى به إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: إني نحلت ابني هذا غلاماً، فقال: «أكل ولدك نحلت مثله؟» قال: لا قال: «فأرجعه» . وفي رواية ...... قال: «فاتقوا الله واعدلوا بين أولادكم»".

  (مشکاۃ  المصابیح، 1/261، باب العطایا، ط: قدیمی)

ترجمہ:حضرت نعمان ابن بشیر  رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ (ایک دن ) ان کے والد (حضرت بشیر رضی اللہ عنہ) انہیں رسول کریمﷺ کی خدمت میں لائے اور عرض کیا کہ میں نے  اپنے اس بیٹے کو ایک غلام ہدیہ کیا ہے، آپ ﷺ نے فرمایا : کیا آپ نے اپنے سب بیٹوں کو اسی طرح ایک ایک غلام دیا ہے؟، انہوں نے کہا :  ”نہیں “، آپ ﷺ نے فرمایا: تو پھر (نعمان سے بھی ) اس غلام کو واپس لے لو۔ ایک اور روایت میں آتا ہے کہ ……  آپ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالی سے ڈرو اور اپنی اولاد کے درمیان انصاف کرو۔

(مظاہر حق، 3/193، باب العطایا، ط: دارالاشاعت)

لہذا صورت مسئولہ میں آپ کو چاہیے کہ آپ اپنی اولاد میں اپنا زیور برابری کے ساتھ تقسیم کریں اور آپ کی بیٹی چونکہ آپ کی حقیقی بیٹی نہیں ہے۔ لہذا اس کا حق اولاد جتنا نہیں ہے۔ البتہ چونکہ یہ مال آپکی زندگی میں آپ ہی  کی ذاتی ملکیت ہے تو آپ اس کو بھی اس میں سے کچھ حصہ ضرور دے سکتی ہیں۔

نیززیور بچوں  کو تحفہ دے دینے میں تفصیل یہ ہے کہ بالغ  اولاد کے ہاتھوں میں دینا ضروری ہے اور نابالغ  کے ولی یعنی والد کے قبضہ میں دینا ضروری ہے۔ مکمل قبضہ دینے کے بعد والدہ نابالغ کا زیور استعمال نہیں کرسکتی، البتہ بالغ اولاد کا زیور ان کی اجازت سے استعمال کر سکے گی۔

مذکورہ زیور کی زکوۃ پہلے ادا نہیں کی گئی ہےتو  اس کو ادا کرنا آپ پر لازم ہے اور اگر آپ کے شوہر آپ کی جانب سے پرانی  زکوۃ بھی ادا کر دیتے ہیں اور آپ کی اجازت بھی  ہو تو گزشتہ زکوٰۃ بھی ادا ہو جائے گی ۔

اگر رشتہ دار زکوۃ کے مستحق ہو ں یعنی غریب ہوں صاحب نصاب نہ ہوں تو ان کو بھی زکوۃ دینا جائز ہے ۔

زکوۃ کی ادائیگی کے وقت  آپ کی طرف سے شوہر کو زکوۃ کی ادائیگی کی اجازت دینا ضروری ہے ۔اور ایک دفعہ اجازت کافی ہے،ہر سال اجازت لینا ضروری نہیں ۔

 صورتِ مسئولہ  میں جو بچی حفظ کر رہی ہے اگر وہ بالغہ ہے تو زکوۃ کی رقم خود اس کو بھی دی جاسکتی ہے کہ وہ اپنی فیس جمع کرادے۔اور اگر وہ نابالغ ہو تو اس کے والد کا مستحق زکوۃ ہونا ضروری ہے۔ بہر دو صورت (بچی بالغہ اور مستحق ہو یا نابالغہ ہو اور اس کے والد مستحق ہوں) زکات کی رقم سے فیس اس وقت ادا کرنا درست ہوگا  جب کہ یہ رقم بچی یا اس کے والد کو مالک بناکر دی جائے یا مستحق نے کسی کو اپنا وکیل بنایا ہو کہ وہ ان کی طرف سے زکات کی رقم وصول کرکے ان کی فیس ادا کردے۔

 فتاوى هندیہ ميں هے:

"تجب في كل مائتي درهم خمسة دراهم، وفي كل عشرين مثقال ذهب نصف مثقال مضروبا كان أو لم يكن مصوغا أو غير مصوغ حليا كان للرجال أو للنساء تبرا كان أو سبيكة كذا في الخلاصة."

(1/ 178 ط: ماجديه)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144308100380

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں