بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

1 جمادى الاخرى 1446ھ 04 دسمبر 2024 ء

دارالافتاء

 

جس مدرسے میں صرف غیر رہائشی طلبہ پڑھتے ہوں اس کے منتظمین کے لیے جائز نہیں ہے کہ لوگوں سے مدرسے کے لیے زکوٰۃ وصول کریں


سوال

ہمارا ایک دینی ادارہ ہے، جس میں بچوں اور بچیوں کو قرآن مجید کی تعلیم دی جاتی ہے، جو مقامی مسجد کے ما تحت ہے،مگر جس علاقے میں واقع ہے وہ انتہائی پسماندہ ہے، جس کی وجہ سے معیاری تعلیم کے لیے اساتذہ  کی معقول تنخواہ اور  دیگر اخراجات مسجد کی کمیٹی کے لیے انتہائی مشکل ہو رہے تھے، تو کمیٹی کے احباب کے مشورہ سے طے ہوا کہ کچھ معقول رقم فیس کی صورت میں طلبائے کرام کے والدین سے لی جائے، تاکہ معیاری تعلیم القرآن کا حصول کچھ آسان ہوجائے، لیکن پھر بھی طلبائے کرام کی ایک اچھی خاصی تعداد  مزدور طبقہ سے تعلق رکھنے کی وجہ سے یہ معقول فیس ادا کرنے سے قاصر ہے، جس کی وجہ سے ان کا معیاری دینی تعلیم سے محروم ہونا یقینی ہی نہیں بلکہ ادارے کے بعض اساتذہ کا مشاہدہ بھی ہے، لہذا اس عذر کی بنا پر کمیٹی کے احباب کا یہ  فیصلہ ہوا کہ ایسے مستحق طلباء و اساتذہ کرام کے اخراجات زکوٰۃ کی مد سے پورے کیے جائیں گے، آیا یہ فیصلہ درست ہے شرعی اعتبار سے؟ اگر درست ہے تو یہ ادارہ زکوٰۃ کا مطالبہ لوگوں سے کر سکتا ہے ان مستحق طلبہ و اساتذہ کرام کے لیے؟ یعنی ہم بچوں کے سرپرست کے علم میں لاکر بچوں کی طرف سے زکوٰۃ کے وصولی کے لیےکے وکیل بن جائیں گے اور پھر زکوٰۃ وصول کر کے اس کو ادارہ کے اساتذہ کی تنخواہوں میں استعمال کریں گے، اس بارے میں ہماری رہنمائی فرمائیں۔

وضاحت:مذکورہ مدرسہ میں صرف غیر رہائشی طلبہ پڑھتے ہیں۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں چوں کے مدرسے میں پڑھنے  والے طلبہ سارے غیر رہائشی ہیں،  ان کے اخراجات(کھانا، پینا، دوائی، رہائش وغیرہ)  کا انتظام   مدرسہ  کی طرف سے نہیں ہوتا، اس لیے مدرسے میں زکوٰۃ کا مصرف موجود نہ ہونے کی بنا پر  منتظمین کے لیے جائز نہیں ہے کہ مدرسے کے لیے زکوٰۃ وصول کریں یا لوگوں سے زکوٰۃ کا مطالبہ کریں، نیز  زکوٰۃ کی رقم سے اساتذہ کی تنخواہیں ادا کرنا بھی جائز نہیں ہے،  البتہ اس کی متبادل صورت یہ ہوسکتی ہے کہ مخیر حضرات کو اس طرف متوجہ کیا جائے جو استادوں کی تنخواہیں ادا کرنے میں مدرسے کے منتطمین کے ساتھ  تعاون کریں۔

الموسوعہ الفقہیہ میں ہے:

"والأصناف الثمانية قد نص عليها القرآن الكريم في قوله تعالى: ’’إنما الصدقات للفقراء والمساكين والعاملين عليها والمؤلفة قلوبهم وفي الرقاب والغارمين وفي سبيل الله وابن السبيل فريضة من الله والله عليم حكيم‘‘ و ’’إنما‘‘ التي صدرت بها الآية أداة حصر، فلا يجوز صرف الزكاة لأحد أو في وجه غير داخل في هذه الأصناف، وقد أكد ذلك ما ورد ’’ أن رسول الله أتاه رجل فقال: أعطني من الصدقة، فقال: إن الله تعالى لم يرض بحكم نبي ولا غيره في الصدقات حتى حكم فيها هو فجزأها ثمانية، فإن كنت من تلك الأجزاء أعطيتك حقك‘‘.

ومن كان داخلا في هذه الأصناف فلا يستحق من الزكاة إلا بأن تنطبق عليه شروط معينة ."

(مادہ:زکات، بیان الاصناف الثمانیہ، ج:23، ص:312، ط:دار السلاسل)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144310100342

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں