زکوۃ کا ایک مسئلہ درپیش ہے، آں جناب سے مودبانہ گزارش ہے کہ تحریر کو مکمل ملاحظہ فرمائیں، تفصیل بہت ضروری تھی اس لیے بیان کی؛ کیوں کہ آپ کی طرف سے ایک ہی مسئلہ کے دو الگ جواب موصول ہوئے ہیں۔
متن: زیور کی کس رقم پر زکوۃ دینی چاہیے؟ مثلاً ایک طلائی سیٹ 2021 میں پچاس ہزار روپیہ کا خریدا تھا اس وقت کراچی صرافہ مارکیٹ میں سونا مبلغ نوے ہزار روپیہ فی تولہ تھا۔ اور اب 2022 میں کراچی صرافہ مارکیٹ میں سونا مبلغ ایک لاکھ بیس ہزار روپیہ فی تولہ ہے، تو اس حساب سے اس کی قیمت میں اضافہ تو ہوتا ہے مگر کچھ لوگ ایک سال پورا ہونے کے بعد اگر اس طلائی سیٹ کی قیمت ستر ہزار روپیہ ہوجاتی ہے تو اس میں سے پہلے 25% کٹوتی کرنے کے بعد جو رقم بچتی ہے اس پر زکوۃ نکالتے ہیں۔ (کیونکہ اگر ایک طلائی سیٹ پچاس ہزار روپیہ کا خریدا تھا تو زکوۃ نکالنے کے وقت فروخت کا گمان کرکے ستر ہزار کا 25% کاٹ کر یعنی 17500 روپیہ کاٹ کر جو رقم بچتی ہے 52500 روپیہ اس پر زکوۃ نکالتے ہیں)۔ جبکہ میرے ناقص علم کے مطابق صرافہ مارکیٹ میں اس وقت کے حساب سے جو سونے کی اصل رقم (جو تولہ یا 10 گرام کی قیمت ہوتی ہے) اس رقم کا 2.5% زکوۃ ادا کی جاتی ہے۔ جناب میرے بڑے بھائی اور ان کے قرب و جوار کے کچھ لوگ کئی سالوں سے مذکورہ پہلے طریقہ کار (جو سونا ان کے پاس موجود ہے ہر سال رمضان میں اسکی کل مالیت نکالنے کے بعد پہلے وہ اس مالیت کا 25% نکالتے ہیں پھر جو رقم بچتی ہے اس کی 2.5% زکوۃ ادا کرتےہیں) سے زکوۃ ادا کرتے آرہے ہں، میری شادی 2018 میں ہوئی تو ایک سال بعد میں نے اپنی منکوحہ کے زیورات کی زکوۃ نکالی (جو سونا ان کے پاس موجود تھا رمضان میں اس کی کل مالیت نکالنے کے بعد 2.5% زکوۃ ادا کی)جو میرے علم میں طریقہ کار موجود تھا اس کے مطابق۔ تو میری منکوحہ نے اعتراض کیا کہ ایسے نہیں نکالتے بلکہ جیسے آپ کے بھائی وغیرہ نکالتے ہیں ویسے نکالتے ہیں۔ تو میں نے اپنی منکوحہ کے اعتراض کو جانچنے اور زکوۃ ادا کرنے میں غلطی سے بچنے کے لئے جامعہ ہذہ کے دفتر فون کیا تو مجھے آپ کے نمائندے کی طرف سے فون پر وہی طریقہ بتایا گیا جس کے مطابق میں نے زکوۃ نکالی تھی۔ پھر میں نے اپنے بڑے بھائی کو آگاہ کیا کہ آپ کا زکوۃ نکالنے کا یہ طریقہ درست نہیں ہے، میں نے جامعہ سے تصدیق کی ہے، یہ سن کر اگلے ہی دن یا کچھ دن میں وہ جامعہ پہنچ گئے اور اپنا مسئلہ بیان کیا تو میرے بڑے بھائی کو وہی طریقہ بتایا گیا جس طریقہ سے وہ پہلے بھی ادا کرتے تھے، تو وہ مطمئن رہے کہ وہ صحیح ہیں پھر انہوں نے اسی پرانے طریقہ سے زکوۃ ادا کی۔
میری آں جناب سے مودبانہ گزارش یہ ہے کہ ہماری مستند و متفقہ مسئلہ سے راہ نمائی فرمائی جائے۔
صورتِ مسئولہ میں سونے کے زیور کی زکوٰۃاگر سونے کی شکل میں ادا کرنی ہو تو زیور میں موجود سونے کا ڈھائی فیصد سونا وزن کے اعتبار سے بطورِ زکوٰۃ ادا کیا جائے اور اگر زکوٰۃ کی ادائیگی نقد رقم سے کرنی ہو توزیور کی موجودہ مارکیٹ قیمت ( یعنی جس قیمت پر زیور کا مالک اسے بازار میں فروخت کر سکتا ہے اس )کے ڈھائی فیصد کے برابر نقد رقم ادا کی جائے، زیور کی قیمت سے 25 فیصد منہا کرنے کے بعد زکوٰۃ کا حساب کرنا درست نہیں ہے۔یعنی سال پورا ہونے کے بعد اگر زیور کو مثلاً 70000 روپے میں فروخت کیا جا سکتا ہے اسی 70000 روپے پر زکوٰۃ ادا کی جائے گی۔نیز یہ بات بھی واضح رہے کہ زکوٰۃ کی فرضیت کا تعلق ماہ رمضان کے ساتھ نہیں ہے بلکہ نصاب کے بقدر مال پر جب بھی قمری طور پر سال پورا ہو جائے تو زکوٰۃ فرض ہو جاتی ہے۔
نوٹ: مذکورہ مسئلے سے متعلق ہمارے ادارے سے ایک ہی طرح کا فتویٰ جاری ہوتا ہے، سائل نے جن دو فتووں کا ذکر کیا، بظاہر اس سے مراد زبانی طور پر دو الگ الگ افراد (سائل اور اس کے بھائی) کے پوچھے گئے سوال اور ان کے جوابات ہیں، ممکن ہے کہ سائل یا اس کے بھائی سے مسئلے کی صورت بیان کرنے یا سمجھنے میں تسامح ہوا ہو۔ مثلًا: زیورات کی بناوٹ کی اجرت کے منہا کرنے کے مسئلے کو وہ زیور کی اصل قیمت سے منہا کرنے کا مسئلہ سمجھے ہوں۔
الدر المختار مع حاشیہ ابن عابدین میں ہے:
"(والمعتبر وزنهما أداء ووجوبا) لا قيمتهما"."(قوله: والمعتبر وزنهما أداء) أي من حيث الأداء، يعني يعتبر أن يكون المؤدى قدر الواجب وزنا عند الإمام والثاني".
(كتاب الزكاة، باب زكاة المال، 2/ 297، ط: سعيد)
بدائع الصنائع میں ہے:
"فإن كان المؤدى من خلاف جنسه بأن أدى الذهب عن الفضة أو الحنطة عن الشعير يراعى قيمة الواجب بالإجماع حتى لو أدى أنقص منها لا يسقط عنه كل الواجب بل يجب عليه التكميل؛ لأن الجودة في أموال الربا متقومة عند مقابلتها بخلاف جنسها وإن كان المؤدى من جنس النصاب فقد اختلف فيه على ثلاثة أقوال قال أبو حنيفة وأبو يوسف: إن المعتبر هو القدر لا القيمة...".
(كتاب الزكاة، فصل: وأما الذي يرجع إلى المؤدى، 2/ 42-41، ط: سعيد)
فتاویٰ عالمگیری میں ہے:
"ويعتبر فيهما أن يكون المؤدى قدر الواجب وزنا، ولا يعتبر فيه القيمة عند أبي حنيفة وأبي يوسف - رحمهما الله تعالى - حتى لو أدى عن خمسة دراهم جياد خمسة زيوفا قيمتها أربعة دراهم جياد جاز عندهما ويكره، ولو أدى أربعة جيادا قيمتها خمسة رديئة عن خمسة رديئة لا يجوز، ولو كان له إبريق فضة وزنه مائتان وقيمته لصياغته ثلثمائة إن أدى من العين يؤدي ربع عشره، وهو خمسة قيمتها سبعة ونصف وإن أدى خمسة قيمتها خمسة جاز، ولو أدى من خلاف جنسه يعتبر القيمة بالإجماع كذا في التبيين".
(كتاب الزكاة، الباب الثالث في زكاة الذهب والفضة والعروض، الفصل الأول في زكاة الذهب والفضة، 1/ 178، ط: رشيدية)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144404100128
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن