بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

زیورات کی زکات میں قیمت فروخت کا اعتبار ہے سرکاری ریٹ کا نہیں


سوال

زیورات کی زکات کا تخمینہ لگانے کا کیا طریقہ ہے؟ اگر زیور کے وزن اور موجودہ مارکیٹ کی قیمت سے حساب لگایئں تو زیادہ بنتی ہے، لیکن اگر بچانے کی نیت سے سنار سے تخمینہ لگوایئں تو قیمت کم بنتی ہے؟

جواب

واضح رہے کہ زکات   کی ادائیگی میں  چیز کی قیمتِ فروخت (جس قیمت پر وہ چیز بازار میں فروخت ہو) کا اعتبار ہوتا ہے، اس لیے زیورات میں اس قیمت کا اعتبار ہوگا جس میں  جیولر دکاندار کسٹمر سے  جتنی رقم پر زیورات  خریدتے ہیں ،چوں کہ اس وقت خریدار بنوائی اور ویسٹیج (گراوٹ) کی قیمت کاٹ کر صرف موجود سونے کی قیمت لگاتا ہے، اسی طرح خالص سونے  سے زیور بناتے وقت کچھ ملاوٹ بھی کرنی پڑتی ہے، اس ملاوٹ کی وجہ سے اس کے معیار میں گراوٹ آتی ہے، لہذا سب کچھ لگانے کے بعد جتنا  خالص سونا ہوتا ہے، اس کی قیمت ملتی ہے، اور زکات اسی کی ادا کرنی ہوگی، دوسرے الفاظ میں خالص سونا 24 کریٹ کا ہوتا ہے، جبکہ زیور بننے کے بعد وہ 22 کریٹ یا 21 کریٹ یا اس سے کم کا بھی بنتا ہے، اور ہر کریٹ کا الگ  الگ ریٹ ہے، لہذا ایک دفعہ سونار سے اپنے زیورات کا وزن اور کریٹ معلوم کرکےنوٹ کیا جائے، اور ہر سال اسی کریٹ کے حساب سے مارکیٹ ریٹ معلوم کرکے زکات ادا کرتا رہے۔

فتاوی شامی  میں ہے:

"(وجاز دفع القیمة في زكاة وعشر وخراج وفطرة ونذر وكفارة غير الإعتاق)، وتعتبر القيمة يوم الوجوب، وقالا: يوم الأداء. وفي السوائم يوم الأداء إجماعاً، وهو الأصح، ويقوم في البلد الذي المال فيه، ولو في مفازة ففي أقرب الأمصار إليه، فتح...وفي المحيط: يعتبر يوم الأداء بالإجماع وهو الأصح اهـ فهو تصحيح للقول الثاني الموافق لقولهما، وعليه فاعتبار يوم الأداء يكون ‌متفقا عليه عنده وعندها."

(كتاب الزكوة، باب زکاۃ الغنم، ج:2، ص:286، ط:سعید)

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع  :

"الواجب الأصلي عندهما هو ربع عشر العين وإنما له ولاية النقل إلى القيمة يوم الأداء فيعتبر قيمتها يوم الأداء، والصحيح أن هذا مذهب جميع أصحابنا؛ لأن المذهب عندهم أنه إذا هلك النصاب بعد الحول تسقط الزكاة سواء كان من السوائم أو من أموال التجارة."

(كتاب الزكوة، ، فصل أموال التجارة، ج:2، ص:22، ط:دار الكتب العلمية)

فتح القدير للكمال ابن الهمام   میں ہے:

"قول أبي حنيفة فيه: إنه ‌تعتبر ‌القيمة ‌يوم ‌الوجوب وعندهما يوم الأداء، والخلاف مبني على أن الواجب عندهما جزء من العين وله ولاية منعها إلى القيمة فتعتبر يوم المنع كما في منع الوديعة وولد المغصوب، وعنده الواجب أحدهما ابتداء، ولذا يجبر المصدق على قبولها فيستند إلى وقت ثبوت الخيار وهو وقت الوجوب. ولو كان النصاب مكيلا أو موزونا أو معدودا كان له أن يدفع ربع عشر عينه في الغلاء والرخص اتفاقا، فإن أحب إعطاء القيمة جرى الخلاف حينئذ."

 (كتاب الزكوة،باب زكاة المال،  ‌‌فصل في العروض، ج:2، ص:219، ط:دار الفكر، لبنان)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144507101682

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں