بیٹی کا نام زنیرہ رکھنا کیسا ہے؟حوالے کے ساتھ رہنمائی فرمائیں ۔
"زنیرۃ"(زاء پر پیش ،نون پر زیربغیر تشدید کے اور راء پر فتحہ) یہ لفظ لغت کی کتابوں میں نہیں مل سکا ،البتہ اس مادہ سے زَنَرَ یَزنُر زنرا عربی لغات میں موجود ہے ،اور اس کا معنی ہے :عیسائیوں کی پیٹی پہنانا ،جنیو (ہندوؤں کے گلے میں پڑا ہو بٹا ہوا دھاگہ )ڈالنا ،برتن بھرنا (القاموس الوحید،ص:720،ط:ادارہ اسلامیات)۔اگر عربی زبان کے قواعد کے مطابق زنرا مصدر کو اسم فاعل یا اسم مفعول کے معنی میں لیں اور اس سے اسم تصغیر مؤنث بنائیں یعنی’’ زنیرۃ ‘‘(زاء پر پیش ،نون پر زیربغیر تشدید کے اور راء پر فتحہ) تو اس کے معنی ہوں گے :عیسائیوں کو پیٹی پہنانے والی چھوٹی عورت ،جنیو ڈالنے والی چھوٹی عورت۔یہ دونوں معانی اچھے نہیں ہیں ،لہذا یہ نام رکھنا درست نہیں ہے ۔
اور اگر "زُنَّيرة" زاء کے ضمہ (پیش) اور نون کی تشدید اور فتحہ (زبر) کے ساتھ اس کا معنی ہے: چھوٹے چھوٹے پتھر،چھوٹےچھوٹے مچھر۔یہ معنی بھی اچھے نہیں ہیں ،لہذا یہ نام رکھنا بھی درست نہیں ہے ۔
البتہ "زِنِّيرة" زاء کےکسرہ (زیر) اور نون کے تشدید اور کسرہ (زیر) کے ساتھ، یہ ایک صحابیہ خاتون کا نام ہے جو کہ ایک باندی تھیں، مدینہ ہجرت کرنے سے پہلے حضرت ابوبکر صدیق نے جن سات غلاموں کو آزاد کیا، ان سے حضرت زنیرہ بھی تھیں۔ آزاد ہونے کے بعد ان کی بینائی جاتی رہی تو ان سے قریش نے کہا: زنیرہ کی بینائی لات وعزی نے ختم کردی۔ حضرت زنیرہ نے جب یہ بات سنی تو فرمایا: قریش غلط کہہ رہے ہیں، ربّ بیت اللہ کی قسم، لات وعزی نہ کوئی نقصان پہنچاسکتے ہیں نہ کوئی نفع پہنچا سکتے ہیں۔ یہ بات ایسے ایمان ویقین کے ساتھ فرمائی کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی بینائی واپس لوٹادی۔
لہذا "زِنِّیْرَه"زاء پر زیر، اور نون پر تشدید اور زیر کے ساتھ چوں کہ ایک صحابیہ کا نام ہے، اور صحابہ وصحابیات کے نام رکھنا باعث برکت ہے ۔ لہذا اس تلفظ کےاعتبار سےنام رکھنا درست ہے۔
وفي الإصابة في تمييز الصحابة :
"زنّيرة، بكسر أولها وتشديد النون المكسورة بعدها تحتانية مثناة ساكنة الروميّة .ووقع في الاستيعاب: زنبرة، بنون وموحدة، وزن عنبرة. وتعقبه ابن فتحون. وحكى عن مغازي الأموي بزاي ونون مصغرة.كانت من السابقات إلى الإسلام، وممن يعذّب في اللَّه، وكان أبو جهل يعذبها، وهيمذكورة في السبعة الذين اشتراهم أبو بكر الصديق وأنقذهم من التعذيب، وقد ذكروا في ترجمة أم عيسى.وأخرج الواقديّ من حديث حسان بن ثابت، قال: حججت والنبيّ صلّى اللَّه عليه وسلّم يدعو الناس إلى الإسلام، وأصحابه يعذّبون، فوقفت على عمرو يعذّب جارية بني عمرو بن المؤمل، ثم يثب على زنيرة فيفعل بها ذلك.وأخرج الفاكهيّ، عن محمد بن عبد اللَّه بن يزيد المقري، وابن مندة من وجه آخر، عن ابن المقري، عن ابن عيينة، عن سعد بن إبراهيم، قال: كانت زنّيرة رومية فأسلمت فذهب بصرها، فقال المشركون: أعمتها اللات والعزى، فقالت: إني كفرت باللات والعزى، فردّ اللَّه إليها بصرها."
(8/ 150الناشر: دار الكتب العلمية - بيروت)
وفي تاج العروس من جواهر القاموس:
"زنر : ( زنره ) ، أي الإناء والقربة : ( ملأه ) . ( و ) زنر ( الرجل ) زنرا : ( ألبس الزنار ) ، كرمان ، ( وهو ما على وسط النصارى والمجوس ) . وفي التهذيب : ما يعلبسه الذمي يشده على وسطه ، ( كالزنارة والزنير ) لغة فيه ( كقبيط ) ... ( والزنانير : الحصى الصغار ) . وقال ابن الأعرابي : هي الحصى ، فعم بها الحصى كله من غير أن يعين صغيرا أو كبيرا . .. واحدتها زنيرة وزنارة .( و ) الزنانير : ( ذباب صغار ) تكون في الحشوش ، واحدتها زنيرة وزنارة .َ..( وزنيرة ، كسكينة : مملوكة رومية صحابية كانت تعذب في الله ) تعالى ، ( فاشتراها أبو بكر رضي الله تعالى عنه فأعتقها ) ، هاكذا ذكره الأمير ابن ماكولا ، ونقله عنه الحافظ ابن حجر في تبصير المنتبه."
(11/ 452الناشر دار الهداية)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144403102376
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن