بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1445ھ 30 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

زندگی میں جائیداد کی تقسیم


سوال

میرے دو بچے اور ایک بچی ہے اور میرے پاس ایک کروڑ نقد پیسے ہیں ،میری یہ خواہش ہے کہ میں ان میں یہ پیسے تقسیم کروں مرنے سے پہلے۔اس کا طریقہ کار کیا ہوگا؟

جواب

صورت مسئولہ میں سائل کے لیے اپنی رقم  اپنی زندگی میں اپنی اولاد میں تقسیم کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ سائل   اپنی ضرورت کے لیے جتنی رقم رکھنا چاہے  رکھ لے تاکہ بوقت ضرورت کام آئے ،اس کے بعد  اگر بیوی ہے تو سائل اپنی بیو ی کو کل رقم کے آٹھویں حصہ کے بقدر دیدے ،پھر  اپنی  باقی رقم  اپنے بچوں میں برابری کے ساتھ تقسیم کردے  ، بیٹے اور بیٹیوں کو برابر برابر تقسیم کردے،یعنی جتنا ایک بیٹے کو دے اتنا ہی ایک بیٹی کو بھی دے ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اولاد کے درمیان ہبہ کرنے میں برابری کرنے کا حکم دیا ، جیساکہ نعمان بن بشیر رضی اللہ تعالی عنہ کی  روایت میں ہے:

''وعن النعمان بن بشير أن أباه أتى به إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: إني نحلت ابني هذا غلاماً، فقال: «أكل ولدك نحلت مثله؟» قال: لا قال: «فأرجعه» . وفي رواية ...... قال: «فاتقوا الله واعدلوا بين أولادكم».''

(مشکاۃ  المصابیح، 1/261، باب العطایا، ط: قدیمی)

ترجمہ:حضرت نعمان ابن بشیر  رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ (ایک دن ) ان کے والد (حضرت بشیر رضی اللہ عنہ) انہیں رسول کریمﷺ کی خدمت میں لائے اور عرض کیا کہ میں نے  اپنے اس بیٹے کو ایک غلام ہدیہ کیا ہے، آپ ﷺ نے فرمایا : کیا آپ نے اپنے سب بیٹوں کو اسی طرح ایک ایک غلام دیا ہے؟، انہوں نے کہا :  ”نہیں “، آپ ﷺ نے فرمایا: تو پھر (نعمان سے بھی ) اس غلام کو واپس لے لو۔ ایک اور روایت میں آتا ہے کہ ……  آپ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالی سے ڈرو اور اپنی اولاد کے درمیان انصاف کرو۔

(مظاہر حق، 3/193، باب العطایا، ط: دارالاشاعت)

لہذا بچوں میں تقسیم کے دوران بلا وجہ کمی پیشی کرنا  یا کسی کو  بالکل ہی محروم کرنا جائز نہیں،البتہ  کسی بیٹے یا  بیٹی کو  کسی معقول وجہ کی بنا پر  دوسروں کی بہ نسبت   کچھ زیادہ  دینا چاہے تو دےسکتا ہے،  یعنی کسی کی شرافت  ودین داری یا غریب ہونے کی بنا پر  یا زیادہ خدمت گزار ہونے کی بنا پر اس کو  دوسروں کی بہ نسبت کچھ زیادہ دے تو اس کی اجازت ہے،نیز جو کچھ جس کو دیا جائے اس میں مالکانہ قبضہ کے ساتھ دینا ضروری ہے ،محض نام کردینا ملکیت کیلیے کافی نہ ہو گا ۔

وفي الفتاوى الهندية :

"ولو وهب رجل شيئا لأولاده في الصحة وأراد تفضيل البعض على البعض في ذلك لا رواية لهذا في الأصل عن أصحابنا، وروي عن أبي حنيفة - رحمه الله تعالى - أنه لا بأس به إذا كان التفضيل لزيادة فضل له في الدين، وإن كانا سواء يكره وروى المعلى عن أبي يوسف - رحمه الله تعالى - أنه لا بأس به إذا لم يقصد به الإضرار، وإن قصد به الإضرار سوى بينهم يعطي الابنة مثل ما يعطي للابن وعليه الفتوى هكذا في فتاوى قاضي خان وهو المختار، كذا في الظهيرية."

(كتاب الهبة,الباب السادس في الهبة للصغير,4/ 391ط:دار الفكر)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144403101776

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں