بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مرحوم کا اپنی زندگی میں بیوی کو مکمل قبضہ کے ساتھ گھر دینا / زندگی میں تقسیم جائیداد


سوال

والد صاحب نے دو شادیاں کیں،پہلی اہلیہ کی وفات کے بعد دوسری شادی کی ،ان سے چھ بچے ہیں اور دوسری سے چار بچے ہیں ،والد صاحب نے دوسری اہلیہ کے نام ایک گھر اپنی زندگی میں مکمل قبضہ کے ساتھ کیا ،جو اہلیہ کے نام پر ہی لیز ہے،والد صاحب کا انتقال ہوگیا ہے ،سوال یہ ہے کہ کیا دوسری اہلیہ کے گھر پر سوتیلے بچوں کا حق ہے؟

گھر اپنے  چار حقیقی بچوں کے نام برابر تقسیم کرنا چاہتی ہیں ،جس وقت والد صاحب نے گھر دوسری اہلیہ کے لیے  لیا  ،اس وقت پہلے بچے  اپنا گھر بنا چکے تھے اور بیٹیوں کی شادی ہوچکی تھی ، چار بچے اس وقت چھوٹے اور والد صاحب  کی کفالت میں  تھے ،کیا والد صاحب نے نا انصافی یا گناہ کا کام تو نہیں کیا ؟اور اگر کچھ غلط ہوا تو  کیا اس کی تلافی  اب ہوسکتی ہے ؟پہلی اہلیہ سے ایک بچی ابنارمل (جس کا دماغی توازن ٹھیک نہ ہو ) ہے اور اپنے بھائی کے ساتھ شروع سے رہتی ہے ۔

تنقیح :

1۔والد صاحب نے دوسری بیوی کے نام پر جوگھر کیا تھا ،یہ ابتداء ہی ان اہلیہ کے نام پر خریدا گیا تھا؟یا پہلے والد صاحب کے نام پر تھا پھر انہوں نے اہلیہ کے نام پر منتقل کیا ؟

2۔اگر گھر ابتداء ہی اہلیہ کے نام پر کیا تھا تو ان کو مکمل قبضہ اور تمام تر تصرفات کا اختیار دیا تھا؟گھر نام کرنے کے بعد والد صاحب اسی گھر میں رہتے تھے یا الگ گھر میں ؟اگر اسی گھر  میں رہ رہے تھے تو اہلیہ کی اجازت سے رہ رہے تھے ؟

3۔اگر گھر شروع میں والد صاحب کے نام پر تھا ،بعد میں اہلیہ کے نام پر کیا تھا تو کیا والد صاحب نے گھر  خالی کرکے اہلیہ کے قبضہ میں دیا تھا یا گھر میں رہتے ہوئے اہلیہ کے نام پر کیا تھا؟

4۔"پہلے بچوں نے اپنے گھر بنا لیے تھے،"اس جملہ میں پہلے بچوں سے کون سے بچے مراد ہیں ؟ نیز انہوں نے گھر والد صاحب کی کمائی اور پیسوں سے بنائے ہیں یا اپنی کمائی اور اپنے ذاتی پیسوں سے بنائے؟

جواب تنقیح :

۱۔والد صاحب نے گھر دوسری اہلیہ کے نام سے ہی خریدا تھا ۔

۲۔جی ہاں مکمل قبضہ اور تصرفات کا اختیار دیا تھا ،والد صاحب اس گھر میں اہلیہ کی اجازت سے بخوشی رہ رہے تھے ۔

۳۔جواب نمبر ایک پر وضاحت ہوگئی ۔

۴۔پہلے بچوں سے مراد پہلی اہلیہ مرحوم کے بچے ہیں اور انہوں نے گھر اپنی ذاتی کمائی یا پیسوں سے بنائے ۔

جواب

صورت مسؤلہ   میں اگر واقعۃ  والد صاحب نے  مکمل  مالکانہ قبضہ  اور تصرف کے ساتھ مذکورہ گھر اپنی دوسری اہلیہ کو بطور ہبہ  دے دیا تھا تومذکورہ  اہلیہ اس گھر کی مالک بن گئیں  تھیں ،والد مرحوم کے انتقال کے بعد یہ  گھر ان کی وراثت میں تقسیم نہیں ہوگا ،  مرحوم کے ورثاء کاچاہے  وہ پہلی اہلیہ کے بچے ہوں یا دوسری اہلیہ کے   اس گھر میں شرعا کوئی حق نہیں ہے ۔

باقی اگر  مرحوم    کی نیت  گھر اپنی دوسری بیوی کو ہدیہ کرنے سے اپنی دیگر اولاد کو محروم کرنے کی نہیں تھی تو اس صورت میں وہ گناہگا ر نہیں ہوں گے اور اگر  مرحوم  کی نیت ا پنی اولاد کو محروم کرنے کی تھی تو اس صورت میں وہ  گناہگار ہوئے اور ا س کی تلافی کی صورت  یہ ہے کہ  مرحوم کی دوسری اہلیہ اپنی خوشی سے یہ  گھر  مرحوم کے تمام ورثاء میں ان کے شرعی حصوں کے بقدر تقسیم کردے۔  

الغرض  والد  مرحوم کے تمام ورثاء خواہ وہ پہلی اہلیہ کی اولاد ہوں یا دوسری اہلیہ کی ،ان کا اس گھر میں  شرعا  کوئی  حصہ  نہیں ہے، اگرمرحوم کی دوسری اہلیہ    اپنی خوشی سے  اپنی زندگی میں یہ  گھر اپنے چار بچوں کے درمیان تقسیم کرنا چاہتی ہیں  تو کرسکتی ہیں ،اور اپنی زندگی میں جو جائیداد تقسیم کی جائے  وہ ہبہ (گفٹ) کہلاتی ہے اور اولاد کے درمیان ہبہ (گفٹ) کرنے میں برابری ضروری ہوتی ہے ، رسول اللہ ﷺ نے اولاد کے درمیان ہبہ کرنے میں برابری کرنے کا حکم دیا ، جیساکہ نعمان بن بشیر رضی اللہ تعالی عنہ کی  روایت میں ہے:

"وعن النعمان بن بشير أن أباه أتى به إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: إني نحلت ابني هذا غلامًا، فقال: «أكلّ ولدك نحلت مثله؟» قال: لا، قال: «فأرجعه». وفي رواية ... قال: «فاتقوا الله واعدلوا بين أولادكم»".

(مشکوٰۃ  المصابیح، 1/261، باب العطایا، ط؛ قدیمی)

ترجمہ:حضرت نعمان ابن بشیرؓ  کے بارے  منقول ہے کہ (ایک دن ) ان کے والد (حضرت بشیر ؓ) انہیں  رسول کریمﷺ کی خدمت میں لائے اور عرض کیا کہ میں نے  اپنے اس بیٹے کو ایک غلام عطا کیا ہے، آپ ﷺ نے فرمایا : کیا آپ نے اپنے سب بیٹوں کو اسی طرح ایک ایک غلام دیا ہے؟، انہوں نے کہا :  ”نہیں “، آپ ﷺ نے فرمایا تو پھر (نعمان سے بھی ) اس غلام کو واپس لے لو، ایک اور روایت میں آتا ہے کہ ……  آپ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالی سے ڈرو اور اپنی اولاد کے درمیان انصاف کرو۔

(مظاہر حق، 3/193، باب العطایا، ط؛ دارالاشاعت)

  اور صاحبِ جائیداد کی طرف سے  اپنی زندگی میں اپنی اولاد کے درمیان ہبہ کرنے کا شرعی  طریقہ یہ  ہے کہ   اپنی جائیداد میں سے  اپنے  لیے   جتنا چاہے  رکھ لے؛ تاکہ بوقتِ ضرورت کام آئے، اور بقیہ مال اپنی  تمام  اولاد میں برابر تقسیم کردے یعنی جتنا بیٹے کو دے اتنا ہی بیٹی کو دے،  نہ کسی کو محروم کرے اور نہ ہی بلاوجہ کمی بیشی کرے، ورنہ گناہ گار ہوگا اور اس صورت میں ایسی تقسیم شرعاً غیر منصفانہ کہلائے گی۔

        البتہ  کسی بیٹے یا  بیٹی کو  کسی معقول وجہ کی بنا پر  دوسروں کی بنسبت   کچھ زیادہ  دینا چاہے تو دےسکتا ہے،  یعنی کسی کی شرافت ودِین داری یا غریب ہونے کی بنا پر  یا زیادہ خدمت گزار ہونے کی بنا پر اس کو  دوسروں کی بنسبت کچھ زیادہ دے تو اس کی اجازت ہے۔

مشکاۃ المصابیح میں ہے:

"وعن أنس قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من قطع ميراث وارثه قطع الله ميراثه من الجنة يوم القيامة» . رواه ابن ماجه."

(کتاب الوصایا،ج:2،ص:926،ط:المکتب الاسلامی)

فتاوی شامی میں ہے :

"أقول: حاصل ما ذكره في الرسالة المذكورة أنه ورد في الحديث أنه صلى الله عليه وسلم قال: «سووا بين أولادكم في العطية ولو كنت مؤثرًا أحدًا لآثرت النساء على الرجال»، رواه سعيد في سننه وفي صحيح مسلم من حديث النعمان بن بشير: «اتقوا الله واعدلوا في أولادكم»، فالعدل من حقوق الأولاد في العطايا والوقف عطية فيسوي بين الذكر والأنثى، لأنهم فسروا العدل في الأولاد بالتسوية في العطايا حال الحياة. وفي الخانية : و لو وهب شيئًا لأولاده في الصحة، وأراد تفضيل البعض على البعض روي عن أبي حنيفة لا بأس به إذا كان التفضيل لزيادة فضل في الدين وإن كانوا سواء يكره، و روى المعلى عن أبي يوسف أنه لا بأس به إذا لم يقصد الإضرار وإلا سوى بينهم، وعليه الفتوى، و قال محمد : ويعطي للذكر ضعف الأنثى، وفي التتارخانية معزيًا إلى تتمة الفتاوى قال: ذكر في الاستحسان في كتاب الوقف :وينبغي للرجل أن يعدل بين أولاده في العطايا والعدل في ذلك التسوية بينهم في قول أبي يوسف وقد أخذ أبو يوسف حكم وجوب التسوية من الحديث، وتبعه أعيان المجتهدين، وأوجبوا التسوية بينهم وقالوا يكون آثما في التخصيص وفي التفضيل".

(رد المحتار، كتاب الوقف 4/ 444 ط:سعيد)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144307200044

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں