بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1445ھ 30 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

زندگی میں جائیداد میں تصرف کرنا


سوال

میں اپنی  زندگی میں اپنی جائیداد میں تصرف کرسکتا ہوں جس طرح چاہوں یا ایک مخصوص مقدار میں تصرف کا حق رکھتا ہوں ؟

جواب

واضح رہے کہ زندگی میں انسان اپنی جائیداد کا خود مختار مالک ہے ،یعنی وہ شرعی حدود  میں  رہتے ہوئے  جائیداد میں  جو چاہے تصرف کرسکتا ہے  ،چنانچہ جائز خرید و فروخت کرسکتا ہے،صدقہ خیرات کرسکتا ہے،کسی کو  ہدیہ کرسکتا ہے ،البتہ اولاد کو ہدیہ کر رہا ہو تو اس میں تمام اولاد برابری کرنا ضروری ہے،بغیر کسی شرعی وجہ کے کمی زیادتی کی اجازت نہیں ۔ اسی  طرح اگر وصیت کرنا چاہے تو اپنے مال کے ایک تہائی حصہ  میں  غیر  وارث کے لیے وصیت کرسکتا ہے۔ ایسا تصرف جو شرعًا ممنوع ہو ،مثلًا  حرام کا موں میں  مال  خرچ کرنا  ،یا ورثاء کو محروم کرنے کی نیت  سے سار ا مال غیر وارث کوہدیہ  کرنا ،یا وارث کے حق میں وصیت کرنا ،یا غیر وارث کے حق میں ایک تہائی  سے زیادہ  مال کی وصیت کرنا ،یا  ایک وارث کو زندگی میں سارا مال ہدیہ  کرنا اور بقیہ ورثاء کو کچھ نہ دینا وغیرہ ،اس طرح کے تصرفات کرنے کی شرعًا  اجازت نہیں ہے ۔

 یہ ایک عمومی حکم ہے ، باقی  اگر آپ کسی خاص صورت کے بارے میں پوچھنا چاہتے ہیں تو وہ واضح الفاظ میں لکھ کر معلوم کرلیں ۔

حدیث  شریف میں ہے :

"من قطع میراث وارثه قطع الله ميراثه من الجنة يوم القيامة."

(مشکوۃ ، ج:۱، ص:۲۶۶، ط: قدیمی)

وفي درر الحكام شرح مجلة الأحكام :

"لأن للإنسان أن يتصرف في ملكه الخاص كما يشاء وليس لأحد أن يمنعه عن ذلك ما لم ينشأ عن تصرفه ضرر بين لغيره. ( انظر المادة 1192 )"

(1/ 473 ط:دار الکتب العلمية)

 وفي الفتاوى الهندية :

"ولو وهب رجل شيئا لأولاده في الصحة وأراد تفضيل البعض على البعض في ذلك لا رواية لهذا في الأصل عن أصحابنا، وروي عن أبي حنيفة - رحمه الله تعالى - أنه لا بأس به إذا كان التفضيل لزيادة فضل له في الدين، وإن كانا سواء يكره وروى المعلى عن أبي يوسف - رحمه الله تعالى - أنه لا بأس به إذا لم يقصد به الإضرار، وإن قصد به الإضرار سوى بينهم يعطي الابنة مثل ما يعطي للابن و عليه الفتوى هكذا في فتاوى قاضي خان و هو المختار، كذا في الظهيرية."

 (4/ 391ط:دار الفکر)

و في اللباب في شرح الكتاب:

"و لاتجوز الوصية لوارثٍ إلا أن يجيزها الورثة."

(ص: 413ط:دار الكتاب العربي)

وفي الجوهرة النيرة على مختصر القدوري :

"وَ لَاتَجُوزُ بِمَا زَادَ عَلَى الثُّلُثِ إلَّا أَنْ يُجِيزَهُ الْوَرَثَة."

(2/ 287ط: المطبعة الخيرية)

فقط واللہ  اعلم


فتوی نمبر : 144307101162

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں