بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

مروجہ حسنِ قراءت کی محافل منعقد کرنا


سوال

موجودہ زمانے میں قراءت کی محفلیں سجائی جاتی ہیں، جن میں دنیا بھر کے مشہور قراء کرام تشریف لا کر تلاوت کرتے ہیں، اب ان محافل کو منعقد کرنے والوں کا مقصد  اگر لوگوں کو علم القراءۃ و التجوید کی طرف راغب کرنا ہو، تو لائق تحسین امر ہے،لیکن عام طور پر جن سورتوں کی تلاوت کی جاتی ہیں، جیسے سورۃ التکویر، سورۃ القارعۃ، ان سورتوں کے اندر بیان کردہ احوال پر غور کرنے سے انسان کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں، لیکن المیہ تو یہ ہے کہ قاری صاحب ان جیسی سورتوں کو داد حاصل کرنے کے لیے پڑھتے ہیں اور سامعین لطف اندوز ہوتے ہیں، جس کا اندازہ دورانِ تلاوت مجمعے کے جھومنے اور اچھل کود کر سبحان اللہ اور ماشاء اللہ کے نعرے لگانے سے ہوتا ہے، کیا داد وصول کرنے کےلیے یا لطف اندوز ہونے کے لیے اس طرح قراءۃ کرنا اور سننا درست ہے یا نہیں؟ اور اس طرح کی محافل منعقد کرنے کا کیا حکم ہے؟

جواب

واضح رہے کہ  ایسی دینی محافل اور مختلف قسم کے دینی اجتماعات جو اشاعتِ قرآن اور  ترویجِ دین کا ذریعہ ہوں، شرعی حدود میں رہتے ہوئے منعقد کرنا نہ صرف جائز  ہے،  بلکہ اجر وثواب کا کام ہے، تاہم اگر یہ محافل مختلف مروّجہ رسومات  کی نذر ہوکر محرّمات ومنکرات  (جاندار کی ویڈیو، نام و نمود، قرآن کی تلاوت پر اجرت لینا وغیرہ) کا مجموعہ بن  جائیں (جیسا کہ آج کل کا عام مشاہدہ ہے) تویہی محافل  بہت سے معاصی کا مجموعہ بن  جاتی ہیں  اور بجائے ثواب کے گناہ کاباعث بن جاتی ہیں،  لہذا ایسی محافل کو نیک مقاصد و فوائد کے  ساتھ  ساتھ عمومی مفاسد اور خرابیوں  سے پاک رکھنا بھی لازم اور ضروری ہے۔

چنانچہ اگر ان مفاسد اور خرابیوں سے بچتے ہوئے اور  شرعی حدود کی رعایت کرتے ہوئے  اس طرح کی محافل منعقد کی جائیں، تو یہ دین کی نشر و اشاعت کا باعث بھی ہوگا اور اجر و ثواب کا باعث بھی ہوگا۔

باقی یہ اشکال کہ قیامت کے احوال پر مشتمل سورتوں کی تلاوت سننے پر ماشاء اللہ اور سبحان اللہ کہی جاتی ہے، تو یہ بات ملحوظ رہے کہ   کسی قابلِ تعجب چیز کو دیکھ کر یا سن کر "ماشاء اللہ" یا "سبحان اللہ" کہنا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور  حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین  سے منقول ہے اور  قاری کی تلاوت سن کر"ماشاء اللہ" یا "سبحان اللہ" کہنے کا مقصد اس کو حسنِ قراءت پر داد دینا ہوتا ہے، نہ کہ احوالِ قیامت پر "ماشاء اللہ" یا "سبحان اللہ" کہنا، چنانچہ اگر قاری کی تلاوت اچھی  معلوم ہو اور اسے داد دینے کی غرض سے"ماشاء اللہ" یا  "سبحان اللہ" کہا جائے،  تو اس میں کوئی حرج نہیں، لیکن اس موقع پر اس بات کا بھی لحاظ رہنا چاہیے کہ دوران تلاوت "ماشاء اللہ" یا "سبحان اللہ" نہ کہا جائے، بلکہ آیت کے اختتام پر کہاجائے اور  آواز معتدل ہونی چاہیے، بہت زیادہ بلند آواز سے سبحان اللہ کہنا کسی طرح پسندیدہ نہیں ہے۔

خلاصہ کلام یہ کہ حسنِ قراءت کی محافل آج کل جس طرح کی خرابیوں کا مجموعہ بن چکی ہیں، اگر ان خرابیوں سے بچتے ہوئے اور شرعی حدود کی رعایت کرتے ہوئے ان کا انعقاد کیا جائے، تو یہ ایک لائقِ تحسین امر ہے اور  اشاعتِ دین کا ذریعہ ہے، لیکن  اگر ان مفاسد کے ساتھ ان کا انعقاد کیا جائے، جو اب رائج ہوگئی ہیں،  تو اس سے اجتناب کرنا لازم ہے۔

شعب الایمان للبیھقی میں ہے:

"عن أنس، عن النبي صلى الله عليه وسلم: " ‌من ‌رأى ‌شيئا يعجبه، فقال: ما شاء الله لا قوة إلا بالله لم يضره ."

(تعدید نعم اللہ وما یجب من شکرھا، جلد:6، صفحه: 212، طبع: مكتبة الرشد)

صحیح بخاری میں ہے:

"عن سعيد بن المسيب، وأبي سلمة بن عبد الرحمن، قالا: سمعنا أبا هريرة رضي الله عنه، يقول: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " ‌بينما ‌راع ‌في ‌غنمه ‌عدا ‌الذئب، فأخذ منها شاة فطلبها حتى استنقذها، فالتفت إليه الذئب، فقال له: من لها يوم السبع ليس لها راع غيري "، فقال الناس: سبحان الله، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: فإني أومن به وأبو بكر، وعمر، وما ثم أبو بكر وعمر."

(كتاب المناقب،  باب  مناقب عمر بن الخطاب، ج:5، ص:12، ط:دار طوق النجاة)

حدیث شریف میں ہے:

"عن عائشة، قالت: دخل علي النبي صلى الله عليه وسلم، وقد استترت بقرام فيه تماثيل، فلما رآه , تغير لونه وهتكه بيده , ثم قال: «إن ‌أشد ‌الناس ‌عذابا ‌يوم ‌القيامة الذين يشبهون بخلق الله."

(كتاب اللباس والزينة، ج:5، ص:200، ط:مكتبة الرشد)

تفسیر قرطبی میں ہے:

"(أليس ذلك بقادر) أي أليس الذي قدر على خلق هذه النسمة «٤» من قطرة من ماء (بقادر على أن يحيي الموتى) أي على أن يعيد هذه الأجسام كهيئتها للبعث بعد البلى. وروي عن رسول الله صلى الله عليه وسلم أنه كان إذا قرأها قال: [‌سبحانك ‌اللهم، ‌بلى [وقال ابن عباس. من قرأ (سبح اسم ربك الأعلى) [الأعلى: ١] إماما كان أو غيره فليقل: (سبحان ربي الأعلى) ومن قرأ (لا أقسم بيوم القيامة) [القيامة: ١] إلى آخرها إماما كان أو غيره فليقل:" (‌سبحانك ‌اللهم ‌بلى" «٥» ذكره الثعلبي من حديث أبي إسحاق السبيعي عن سعيد ابن جبير عن ابن عباس. ختمت السورة والحمد «٦» لله."

(سورۃ القیامة، ج:19، ص:117، ط:دار الكتب المصرية)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"ويكره الصعق عند القراءة؛ لأنه من الرياء وهو من الشيطان، وقد شدد الصحابة والتابعون والسلف الصالحون في المنع من الصعق والزعق والصياح عند القراءة، كذا في القنية."

(كتاب الكراهية، ج:5، ص:317، ط:دار الفكر)

وفيه أيضا:

"رفع الصوت عند سماع القرآن والوعظ مكروه، وما يفعله الذين يدعون الوجد والمحبة لا أصل له، ويمنع الصوفية من رفع الصوت وتخريق الثياب، كذا في السراجية."

(كتاب الكراهية، ج:5، ص:319، ط:دار الفكر)

احیاء العلوم میں ہے:

"وفي ‌أثناء ‌القراءة ‌إذا مر بآية تسبيح سبح وكبر وإذا مر بآية دعاء واستغفار دعا واستغفر وإن مر بمرجو سأل وإن مر بمخوف استعاذ يفعل ذلك بلسانه أو بقلبه فيقول سبحان الله نعوذ بالله اللهم ارزقنا اللهم ارحمنا."

(كتاب آداب تلاوة القرآن، ج:1، ص:278، ط:دار المعرفة)

آپ کے مسائل اور ان کا حل میں ہے:

"سوال: اللہ تعالٰی کے فضل و کرم سے میں روزانہ قرآن پاک کی تلاوت کرتا ہوں، تلاوت کرتے وقت جہاں لفظِ "رسول" یا "رسول اللہ" آتا ہے، وہاں "صلی اللہ علیہ وسلم" پڑھنا جائز ہے یا نہیں؟

جواب:آیت ختم کر کے پڑھ لیا جائے۔"

(قرآن کریم کی عظمت اور تلاوت، ج:4، ص:477، ط:مکتبہ لدھیانوی)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144405100641

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں